اس طرح جانِ دو عالم ہے دل و جان کے ساتھ

اس طرح جانِ دو عالم ہے دل و جان کے ساتھ

جیسے قرآن ہو خود صاحبِ قرآن کے ساتھ


دل میں یوں ہی رہے ارمانِ مدینہ یارب

ورنہ یہ دم بھی نکل جائے گا ارمان کے ساتھ


یادِ والا نے تہہ قبر بڑا ساتھ دیا

ورنہ کچھ بھی نہ تھا مجھ بے سرو سامان کے ساتھ


روحِ اسلام کا مفہوم ادا ہو جائے

ملے اخلاق سے انسان جو انسان کے ساتھ


موت سے پہلے زبان پر کوئی نام آتا ہے

خاتمہ ہوتا ہے مومن کا بڑی شان کے ساتھ


یوں تو کونین کی ہر شے میں ہیں اس کے جلوے

مگر ایمان کی شمعیں ہیں مسلمان کے ساتھ


ہاتھ سے دولتِ کونین کو کیسے چھُو لُوں

ربط ہاتھوں کو ہے اس گوشہء دامان کے ساتھ


دونوں عالم میں نہ ہو کیوں مری توقیر صبیحؔ

خاص نسبت ہے مجھے حضرتِ حسّان کے ساتھ

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

کرم کے بادل برس رہے ہیں

باب انعام کھلا رحمتِؐ عالم کے طفیل

توں شملہ ہر پگ دا آقا

جاودان و بیکراں ہے رحمتِ خیر الانامؐ

صد شکر اتنا ظرف مری چشمِ تر میں ہے

نعت جب تحریر کی الفاظ تارے بن گئے

صحنِ مکہ میں بہار آئی ترےؐ آنے سے

کچھ غم نہیں ہے مجھ کو حساب و کتاب کا

نبیوں میں نبی آپ سا دیکھا نہیں کوئی

ان لوگوں کی قسمت کے تابندہ ستارے ہیں