عشق تیرا نہ اگر میرا مسیحا ہوتا
میں بھی پندار کے صحراؤں میں کھویا ہوتا
تیری نسبت نے سنوارا مرا اندازِ حیات
میں اگر تیرا نہ ہوتا ، سگِ دُنیا ہوتا
ہائے وہ دل جو نہیں تیری محبت کا امیں
اچھا ہوتا جو ترا نقشِ کفِ پا ہوتا
یہ مری اپنی طلب تھی مجھے تُو مل جائے
ورنہ اللہ بھی مل جاتا جو مانگا ہوتا
جس کی تنویر بنی غارِ حرا کی زینت
کاش وہ نُور مرے دل کا اُجالا ہوتا
آنکھ کو دل نہ ملا ، دل کو نگاہیں نہ ملیں
ورنہ اس چاند کو گھر میں نہ اتارا ہوتا
یاد سے جس کی مہکنے لگے صحرائے خیال
پھول وہ دل میں سجا ہوتا تو کیسا ہوتا
کُوئے سرکار میں ہوگا کہیں مصروفِ طواف
دل اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکتا ہوتا
کاش یہ آنکھ تری راہ کے تنکے چُنتی
دل ترے شہر کی گلیوں میں سُلگتا ہوتا
میں تیرے نام کی دیتا رہا دنیا میں صدا
پھرمجھے کیوں غمِ دنیا ، غم عقبیٰ ہوتا
کوئی حسرت بھی تو ہو ، کوئی تمنا بھی تو ہو
کیوں عطا حوصلۂ عرضِ تمنا ہوتا
”حدِّ کُنہ تو بادارک نشاید دانست“
دل کی آنکھوں سے کوئی دیکھنے والا ہوتا
مجھ کو مرغوب نہیں شہد کی نہریں ساقی
میرے پینے کو کوئی آگ کا دریا ہوتا
خاک ہوتا تو ہواؤں سے لپٹ کر اعظؔم
آستانِ شہہ لولاک ؐ پہ پہنچا ہوتا
شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی
کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی