جب سے مَیں تیرے عشق میں گُم ہُوں

جب سے مَیں تیرے عشق میں گُم ہُوں

ایک قطرہ تھا بحرِ قُلزم ہُوں


نعت کِس کِس مقام تک لائی

پردہ ہُوں ساز ہُوں ترنّم ہُوں


جو مئے عشق سے لبالب ہے

مَیں وہ مینا وہ جام وہ خُم ہُوں


مُجھ میں شمعِ یقیں فروزاں کر

ورنہ مَیں تو شبِ توھّم ہُوں


تُجھ سے مُجھ میں توازنِ رفتار

مَیں کہ فطرت میں اِک تلاطم ہُوں


اُن کو تُو نے دیا ہے حُسنِ مزاج

جِن عناصر کا میں تصادم ہُوں


میرے آدابِ گفتگو تری دین

مَیں کہ شیرینئ تکلّمُ ہُوں


میرے نقّاش میرے سیرت ساز

مَیں محبّت بھرا تبسّم ہُوں


جی اُٹھی تُجھ سے خاکِ مُردہ مِری

مَیں کہ تیرا ترانہء قُم ہُوں

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

جیون دا مزہ تاں ایں اک ایسی گھڑی ہووے

مری عزت ترے نال دے سہارے یا رسول اللہﷺ

اپنے عملّاں اُتّے سنگاں

کرم تیرے دا نہ کوئی ٹھکانہ یا رسول اللہؐ

لپٹ کر سنگِ در سے خوب رو لوں

تاج انجم نکہت گل آپؐ ہیں

نہ کوئی آپ جیسا ہے نہ کوئی آپ جیسا تھا

کوئی بھی نہ محبوبِ خُدا سا نظر آیا

بُرا ہاں یا رسول الله

کتنے عالم زیرِ رحمت رحمت العالمیں