جلوۂ رُوئے نبیؐ مطلعِ انوارِ حیات
جُنبشِ غنچۂ لب، خُطبۂ کردارِ حیات
تیری تخلیق کو مانا گیا شہکارِ حیات
نُور تیرا ہی رہا طُرّۂ دستارِ حیات
یہ شرف کم ہے کہ شامل ہیں تری اُمّت میں
ورنہ ہم جیسے سِیہ کار، سزاوارِ حیات؟
تیرے ہی نُور سے روشن ہوئے افلاک و زمیں
رُونما ہوگئے ہر گوشے میں آثارِ حیات
سیرت سیدِّ عالمؐ نے وہ بخشی رِفعت
اوج در اوج اُبھرتا گیا معیارِ حیات
ہم عدم تھے، تری نسبت سے مِلا ہم کو وُجُود
ہر نفَس کرتا ہے انسان کا، اقرارِ حیات
یا نبیؐ! تیرے ہی صدقے میں ہے دُنیا قائم
سچ تو یہ ہے کہ تری ذات ہے مختارِ حیات
سَرد مہری کے سِوا خَلق میں کچھ اور نہ تھا
تیرے آنے سے بڑھی گرمئی بازارِ حیات
حشر ہے تیری شفاعت کا اُمڈتا دریا
موت ہے ایک حقیقت، پسِ دیوارِ حیات
جب تک آئے نہ قدم تیرے شہنشاہِؐ عرب
فصلِ گُل سے نہ شناسا ہُوا گلزارِ حیات
اک ترے عشق میں مُضمر ہے حیاتِ ابدی
اک ترے نام پہ مَرتے ہیں طلبگارِ حیات
مَیں بھی تو ایک مسافر ہُوں سرِ راہِ طلب
اک نظر مجھ پہ بھی اے قافلہ سالارِ حیات!
تیرے جلووں پہ ہے قربان یہ نصیرِؔ شیدا
تُو ہے کونین میں آئینۂ اسرارِ حیات
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست