تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

ترے ساتھی تھے ابر رحم کے ٹکڑے


جو تیرے ساتھ چلتے تھے

تو ان کا سایہ تھا وہ سائے تھے تیرے


ترے قلب منور سے جو نسبت تھی

اُسی سے چاند روشن ہے


زمانے نے ستم جب بھی کیا مجھ پر

ترے دامانِ رحمت میں جگہ ڈھونڈھی


ترے دست مبارک نے غنی تر کر دیا مجھ کو

زمانہ کیا مجھے دے گا


میں تیرے در کا سائل ہوں

ترا قلب مبارک خواب کی وادی میں کب سویا


نبوت کی صداقت کی نشانی خواب تھا تیرا

ہر اک لمحہ تری دعوت کا جیسے آیت کبری


وہ آیت جو سپیدی کو سیاہی سے جدا کر دے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

مَیں پچھلے سال اِن دنوں شھرِ نبیؑ میں تھا

اوہ نہیں پُچھدے طو ر دیاں راہوں

سرمایہء اشکِ رواں سایہ کُند بَر عاصیاں

عزتِ عرش و فلک پائے رسولِ عربی

اس قدر ہے مرا رابطہ آپ سے

مینوں سد لے مدینے اک وار سوہنیاں

معراجِ نبیؐ آج ہے افلاک سجے ہیں

یا نبی ؐ سلام علیک یا رسولؐ سلام علیک

تم پہ لاکھوں درُود

نہ پل صراط نہ محشر کے دن سے ڈرتا ہے