جلوہ گر کونین میں آقا کی طلعت ہو چکی

جلوہ گر کونین میں آقا کی طلعت ہو چکی

منبعِ انوار آئے دُور ظُلمت ہو چکی


تین جھنڈے اِس لئے لہرادئیے جبریل نے

مالکِ کون ومکاں کی اب وِلادت ہو چکی


رحمت اللعالمین اُن کو خدا نے کردیا

قائم اُن کی کُل جہانوں میں حکومت ہو چکی


خُلق ہے خوب آپ کا نامِ مبارک مصطفیٰ

مُنتخب ذات آپ کی اے جانِ رحمت ہو چکی


دو جہاں میں ہے اُنھیں کا اب تو سِکہ معتبر

ناسِخِ ادیان آقا کی شریعت ہو چکی


دین بس اسلام ہے سب نعمتیں اُن پر تمام

ختم آقا پر نبوت اور رِسالت ہو چکی


تھی نبوت کے محل میں اینٹ باقی ایک ہی

ذاتِ شاہِ دیں سے تکمیلِ عِمارت ہو چکی


دائیاں سب رہ گئیں تُو مصطفیٰ کو لے چلی

تیری قِسمت میں حلیمہ یہ سعادت ہو چکی


ہر زمانے کی زبانوں میں خدا کے فضل سے

ہورہی ہے اور ہوگی اُن کی مِدحت ہو چکی


اُن کے گھر والوں کا رُتبہ خوب ہے قُرآن میں

رب کی جانِب سے بیاں اُن کی طہارت ہو چکی


رب کا وہ اِنعام فردوسِ بریں جِس کو کہیں

دیں جسے چاہیں یقیناً مِلکِ حضرت ہو چکی


قلبِ مرزا کی جِلا ہو اِک اِشارہ کیجئیے

جانے کِتنوں کی طرف آقا اِشارت ہو چکی


اِک نِگاہِ لُطف مرزا پر حضور اب کیجئے

کثرتِ عصیاں سے کیسی اِسکی حالت ہو چکی

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

چھِڑ جائے جس گھڑی شہِؐ کون و مکاں کی بات

دھرم کرم سے کئی گنا ہے بڑھ کر پریم کا مرم(

درود پڑھتے رہیں مصطفیٰ کی بات چلے

مئے محبوب سے سرشار کردے

میرا گدا میرا منگتا میرا غلام آئے

ویرانے آباد نہ ہوتے، ایک جو ان کی ذات نہ ہوتی

شہنشاہِ زمانہ باہزاراں کروفر آئے

میں لجپالاں دے لَڑ لگیاں میرے توں غم پرے رہندے

ہر اک شے دی اصل اصول

ایس دِل دے کورے کاغذ تے سوہنی تصویر بناواں مَیں