چلے ہیں اہلِ طلب سُوئے منزلِ مقصُود

چلے ہیں اہلِ طلب سُوئے منزلِ مقصُود

دِلوں میں عشق لبوں پر ترانہ ہائے درُود


جمی ہُوئی ہے نظر اُن کے سبز گنبد پر

اُتر رہی ہیں دل و جاں میں کیفیاتِ شہُود


درِ کرم پہ کھڑے ہیں بہ چشمِ تر آقا

نظر جُھکی ہُوئی، پیشانیاں عرق آلود


خوشا نصیبِ کسی کو بدامنِ تو رسید

بہ دامنِ تو رسید و بہ دوجہاں آسود


بس اِک نشاطِ حضُوری کہ جس میں بُعد نہ ہجر

بس اِک زمانِ مسلسل کہ جِس میں رفت نہ بود


ابد کے نرخِ گراں پر بھی مَیں عطا نہ کروں

تڑپ تڑپ کے مِلا ہے یہ لمحۂ موجود


یہ ساری رونقِ ہستی اِنہی سے ہے ورنہ

سوائے خلوتِ لاہوت کُچھ نہ تھا موجُود


احاطہ اُن کے جلال و جمال کا کیا ہو

کہ ہیں وسائلِ عشق و خرد بہت محدود


چراغِ ماہ میں وہ، شمعِ آفتاب اُن سے

ستارہ ہائے فلک سے زیادہ اُن پہ درُود


اگر اطاعتِ سرکارؐ پر نہ ہو بُنیاد

مثالِ خانۂ برباد ہیں رکُوع و سجُود


اُنہی کے در پہ کجاوے کھُلیں گے آخرکار

رُکے گا ایک ہی منزل پہ کاروانِ وجُود


بجز گزارشِ دیدار کیا کروں عاصیؔ

کہ ایک بندۂ مجبُور کی یہی ہیں حدُود

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

بھل کے بدکاریاں تے سِیہ کاریا ں

مِرے بھی حصے میں آئی حسین ساعتِ نعت

خلق کہ جان دے دشمن ہیٹھاں چادر آپ وچھاوے

اُجالے کیوں نہ ہوں دیوار و در میں

دلاں دے درد دا دارو ہوا مدینے دی

یہی ہے تمنّا یہی آرزو ہے

کرم آقائے ہر عالم کا ہم پر کیوں نہیں ہوگا

ہے کبھی دُرود و سلام تو،کبھی نعت لب پہ سجی رہی

(مثلث)یَا اَ یُّہا المُزَّمِل

میں نہ وہابی ‘ نہ قادیانی‘ نہ میں بہائی ‘ نہ خارجی ہوں