اُجالے کیوں نہ ہوں دیوار و در میں

اُجالے کیوں نہ ہوں دیوار و در میں

میں ذکرِ مصطفیٰ کرتا ہوں گھر میں


وہ جیسے ہیں کوئی ویسا نہیں ہے

یہی لکھا ہے تاریخِ بشر میں


یہاں بے مانگے ملتا ہے گدا کو

نہیں کوئی بھی در ایسا نظر میں


چلا ہوں سوئے دربارِ رسالت

ہے میرے ساتھ اِک خوش بو سفر میں


انھی کے نور سے تاباں ہے سورج

انھی کی بھیک کشکولِ قمر میں


مدینے جاؤں ، آؤ ں پھر سے جاؤں

خدا تا عمر رکھے اس سفر میں


صبیحؔ اُن کا ہوں میں اِک نام لیوا

سو میرا نام ہے اہلِ ہنر میں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

مرے آقا

تُو حبیبِ خدا خاتم الانبیاءؐ

سپنوں میں آئیں آپ تو ہو جائے میری عید

کملی والیا شاه اسوارا

چل چلئے مدینے دُکھ دُور ہوون گے

خاک پر نُورِ خُدا جسم میں ڈھل کر اُترا

مِری ہستی مٹائی جارہی ہے

گھپ اندھیرا تھا یہاں بزمِ حِرا سے پہلے

مِرے سرکار کی مدحت مِرے سرکار کی باتیں

ہے یہ جو کچھ بھی جہاں کی رونق