جینے کے آثار ملے ہیں

جینے کے آثار ملے ہیں

آج مجھے سرکار ملے ہیں


سرے غم کی رات ڈھلی ہے

صبح کے انوار ملے ہیں


گنج شکر داتا، لاثانی

کتنے اچھے یار ملے ہیں


وادی دل سے کون ہے گزرا

وجد میں دل کے تار ملے ہیں


عشق نبی کے صدقے جاؤں

دل میں درد ہزار ملے ہیں


رقصاں رقصاں شہر نبی کے

کوچہ و بازار ملے ہیں


کیسے دیکھوں حسن کے جلوے

جلوے جلوہ بار ملے ہیں


وادی عشق میں سوچ کے جانا

راہ بڑے دشوار ملے ہیں


غم کے مارو غم کاہے کا

بطحا کے غم خوار ملے ہیں


ہم نے نیازی کو جب دیکھا

لب پہ تیرے اذکار ملے ہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

کس قدر تھا رُوح پرور دُور جا کر دیکھنا

کنار بحر

سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے

کبھی تو سبز گنبد کا اجالا ہم بھی دیکھیں گے

کراں فریاد میں تڑپاں تے روواں یارسول اللہ

بخشی ہے جس نے رسم ، جہاں کو

عنایت کا سمندر سامنے ہے بے نواؤں کے

خلوت كده دل گل خندان محمد

سجن روگ مٹا جاندے نے

جان و دِل سے ہوں میں فدائے حضورؐ