جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے

جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے

اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے


منظر ہو بیاں کیسے ، الفاظ نہیں ملتے

جس وقت محمدﷺ کا دربار نظر آئے


بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی

پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے


دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے

جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے


مکے کی فضاوں میں، طیبہ کی ہواوں میں

ہم نے تو جدھر دیکھا سرکارﷺ نظر آئے


چھوڑ آیا ظہوری میں دل و جان مدینے میں

اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

اُن پہ لکھنا شِعار ہے میرا

جگمگاتی ہے زمانے کی فضا کون آیا

سر بہ خم کاسہ بکف کوچۂ اقدس میں رہے

مسرت، شادمانی، اور شہرت بھی میسر ہے

خوں کے پیاسوں کی جاں بخشنے آگئے

بند کر ساقیا نہ ابھی میکدہ میں ہوں امیدوار آخری آخری

طیبہ دے پر کیف منظر تے بہاراں نوں سلام

اوہدے بخت دی کیہڑا ریس کرے جہنوں حاضری دا پیغام آوے

کملی والے دے راہواں توں قربان مَیں