کم میرا مصطفیٰ سے کبھی رابطہ نہ ہو

کم میرا مصطفیٰ سے کبھی رابطہ نہ ہو

مر جاؤں میں حضور کا گر آسرا نہ ہو


عزت نہیں ملی ہے کہ شہرت نہیں ملی

وہ کون سا کرم ہے جو مجھ پر ہوا نہ ہو


یہ کس نے جان ڈال دی مردہ دلوں میں آج

یہ کوچہء حبیب کی ٹھنڈی ہوا نہ ہو


ایسا تو آپ کے کبھی در پر ہوا نہیں

سائل نے مانگا ہو تو سخی نے دیا نہ ہو


وہ سامنے ہے گنبد خضری وہ جالیاں

میرے ہر ایک درد کی کیونکر دوا نہ ہو


بیٹھا ہوں سر جھکائے مواجہہ کے سامنے

ایسے میں کوئی دوست مجھے ڈھونڈتا نہ ہو


ہوتی رہیں حضور کی بندہ نوازیاں

ان کی عنایتوں کی کبھی انتہا نہ ہو


دنیا کی مہربانیاں اپنی جگہ مگر

میں خاک بھی نہیں ہوں جو اُن کی عطا نہ ہو


یا رب یہی ہے آرزو صدقہ حسین کا

یاد حضور مر کے بھی ہم سے جدا نہ ہو


دنیا ہو یا لحد ہو کہ میدان حشر ہو

بے آبرو کہیں بھی نبی کا گدا نہ ہو


تعلیم ہے یہ میرے رسول کریم کی

اُس کو بھی پوچھ جس کو کوئی پوچھتا نہ ہو


ان پر بھی ہوں نوازشیں ان پر بھی ہوں کرم

جن کے نصیب میں تیرے در کی فضا نہ ہو


سمجھوں گا مجھ سے خوش نہیں ہرگز خدا مرا

راضی اگر نیازی مرا مصطفیٰ نہ ہو

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

ہم آج آئے ہیں زخم جگر دکھانے کو

ناز کر ناز کہ ہے ان کے طلب گاروں میں

ئیں کوئی اوقات او گنہار دی

شاہِ ہر دوسرا آپ ہیں آپ ہیں

کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا

محمد کی محفل سجاتے رہیں گے

میں نوکر ہوں شاہِ مدینہ کا سُن لو

جھکا کے اُنؐ کی عقیدت میں سر مدینے چلو

آپ ہیں جانِ ارض و سما

سیّدی یا حبیبی مولائی