کرم کے راز کو علم و خبر رکھتے ہیں

کرم کے راز کو علم و خبر رکھتے ہیں

جو لوگ گنبدِ خضرا نظر میں رکھتے ہیں


جنونِ عشق محمد جو سر میں رکھتے ہیں

عجب مقام جہانِ ہنر میں رکھتے ہیں


نبی کے نام کی نسبت سے ہم سے عاصی بھی

دُعائیں اپنی حدودِ اثر میں رکھتے ہیں


خدا شناسی کی منزل میں پیروانِ رسول

چراغِ علم و عمل رہگذر میں رکھتے ہیں


جو اہل دل ہیں مدینے کی سمت جاتے ہوئے

متاعِ نعت بھی زادِ سفر میں رکھتے ہیں


کہاں ہم اور کہاں مدحت رسول صبیح ؔ

اِک ارتعاش سا قلب و جگر میں رکھتے ہیں

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

آہ! ہر لمحہ گنَہ کی کثرت اور بھرمار ہے

پُوچھتے کیا ہو عَرش پر یوں گئے مصطفٰے کہ یوں

اوہ وقت سوہنے کہ مری سرکار اون گے

کیہہ اس توں ہور وڈی نیک نامی

کرم کر کرم کر کرم یا نبی

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولﷺ

میں کرتا ہوں توصیفِ ذاتِ گرامی

میرے دل کی دھڑکنوں سے گفتگو کرتے ہیں آپؐ

مریضِ مصطفیٰ ؐ کے سامنے کس کا ہُنر ٹھہرا

رب دا دوارا اے دوارا آپ دا