خورشید سےکچھ کم نہیں وہ چشمِ بشر میں

خورشید سےکچھ کم نہیں وہ چشمِ بشر میں

ذرّے جو نظر آئے مدینے کے سفر میں


اللہ رے اشکِ غمِ احمدؐ کی یہ جھِلمل

مہتاب جھلکتے ہیں مِرے دیدۂ تر میں


کیا مجھ کو لُبھا سکتے ہیں گردُوں کے ستارے

ہر ذرّہ مدینے کی زمیں کا ہے نظر میں


بخشی ہے جو قدرت نے مِرے اشِک وفا کو

وہ آب کہاں ہے کسی تابندہ گُہَر میں


یہ بات، یہ انداز کہاں اُن کو میّسر

کب ہے دلِ مضطر کی ادا برق و شرر میں


جو شَے ہے تصدّق ہے وہ محبوبِؐ خدا پر

کونین ہیں سرکارِؐ دو عالَم کے اثر میں


سُنسان ہے، ویران ہے دُوری سے مِرا دل

جلووں سے چراغاں ہو کسی دن مِرے گھر میں


آنکھوں میں سمائے ہیں مدینے کے مناظر

آجائیں گے ہم بھی شہِؐ بطحا کی نظر میں


دیوانہ و بیتاب ہُوں ایسا کہ نصیرؔ اب

ہر وقت مدینے کا ہے سودا مِرے سَر میں

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

اک چشمِ عنایت کے آثار نظر آئے

باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے

زہے شرف، مہربان ہیں کس قدر مِرے حال پر محمد ﷺ

کملی والے دے راہواں توں قربان مَیں

جہاناں ساریاں اُتے ہے رحمت کملی والے دی

کتنا گناہگار ہُوں کتنا خراب ہُوں

لب پہ ذکر شہؐ ابرار ہے سبحان اللہ

بے رنگ ہوچکا ہے غزل سے وفا کا رنگ

کر ذکر مدینے والے دا ایہدے چہ بھلائی تیری اے

نعتِ حضرتؐ مری پہچان ہے سبحان اللہ