لب پہ جاری نبیؐ کی ثنا چاہیے
ان کی الفت سے دل آشنا چاہیے
میرے سر کوحرم کی فضا چاہیے
میرے دل کو درِ مصطفیٰ چاہیے
آپ آئیں نہ آئیں یہ ان کی رضا
در کھلا چاہیے گھر سجا چاہیے
ہوش کو بھی کوئی ہوش باقی نہیں
آپ آئیں تو کیا مانگنا چاہیے
چپ کھڑا میں رہوں اور وہ کہتے رہیں
مانگو مانگو تمہیں اور کیا چاہیے
پوچھنے آ گئے مجھ کو میرے حضورؐ
اس سے بڑھ کے مجھے اور کیا چاہیے
وقفِ سوز و الم ، درد دل ، چشم ِ نم
ان کی بیمار کو کیا دوا چاہیے
صرف اپنی خبر خیر اچھی نہیں
درد اوروں کا بھی بانٹنا چاہیے
غرقِ عصیاں ہوں میں ، وہ کہاں میں کہاں
دید کو چشم غوث الوریٰ چاہیے
شامل حال ہے ان کا لطف و کرم
امتی کو تو ان کی رضا چاہیے
وقت آخر ظہوری ؔ مہک جائے گا
ان کے دامن کی ٹھنڈی ہوا چاہیے
شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری
کتاب کا نام :- توصیف