لے کے مدحت کے ترانے ہم مدینے جائیں گے

لے کے مدحت کے ترانے ہم مدینے جائیں گے

سرورِ دیں کو سنانے ہم مدینے جائیں گے


روکتا کیوں ہے دِوانے ! ہم مدینے جائیں گے

سوئی قسمت کو جگانے ہم مدینے جائیں گے


گنبدِ خضرا کے سائے میں رہیں گے روز و شب

مشک و عنبر میں نہانے ہم مدینے جائیں گے


کرچکے ہیں ظلم جاں پر، اب شفاعت کے لئے

دی اگر مہلت قضا نے ہم مدینے جائیں گے


آیتِ لاَترفَعُوا اَصواتَکم کی چھاؤں میں

مدعا کے لب ہلانے ہم مدینے جائیں گے


کون جائے گا مدینہ کون مکہ پوچھئے

بول اُٹّھیں گے دِوانے ہم مدینے جائیں گے


پھر شہنشاہِ مدینہ کب بلائیں گے شفیقؔ

پھر دوبارہ کب نہ جانے ہم مدینے جائیں گے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

اشارے بھانپ جاتی ہے ادا پہچان لیتی ہے

مِل جائے مدینے کی فضا اِتنا کرم ہو

!بے رنگ سے دن رات ہیں اے سیّدِ ساداتؐ

دل کو سُکوں چمن میں نہ ہے لالہ زار میں

پنج تن دا صدقہ مولا سانول دی خیر تھیوے

والضحیٰ میں کبھی رحمٰن میں آجاتے ہیں

سارے جہاناں نالوں سوہنے دی بستی چنگی

خدا نے دل دیا دل کو خدا نبیؐ نے دیا

نامِ نامی بھی صدا ہو جیسے

تجھ کو آنکھوں میں لیے جب مَیں یہ دُنیا دیکھوں