مچلتا ہے دِل ڈبڈباتی ہیں آنکھیں
خدا جانے کیسا مقام آرہا ہے
اَدب سے نگاہوں کو اپنی جھکالو
وہ دیکھو وہ باب السّلام آرہا ہے
حبیبِ خدا پیشوائے زمانہ
وہ نورِ مجسّم رسول یگانہ
ملائک بھلا کیوں نہ دیں پھر سَلامی
خدا کی طرف سے سلام آرہا ہے
بڑی شان اُن کو عطا کی خدا نے
فرشتے بھی آتے ہیں سر کو جھکانے
رسولِ گرامی کے روضے پہ دیکھو
زمانہ بصد احترام آرہا ہے
جب آئیں گے محشر میں آقا ہمارے
وہ سب عاصیوں بیکسوں کے سہارے
تو سب انبیاء بھی کریں گے اِشارے
وہ کل انبیا ء کا امام آرہا ہے
انہیں دیکھ کر امتی یہ کہیں گے
نہ اب مبتلائے مصیبت رہین گے
نہیں کوئی نارِ جہنّم کا کھٹکا
وہ دیکھو شفیعِ اَنام آرہا ہے
محبت سے عرشِ بریں کو سنوارا
یہ معراج کی شب خدا نے پکارا
فرشتو اِدھر آؤ دُھومیں مچاؤ
مِرا آج ماہِ تمام آرہا ہے
نہیں کوئی دشواریوں کا مجھے غم
مُربی ہیں جب میرے شاہِ دوعالم
نہ کیونکر ہوں پھر مشکلیں میری آساں
زباں پر مُحمّدؐ کا نام آرہا ہے
یہی نام ہے درد مندوں کا چارا
یہی نام ہے بیکسوں کا سہارا
یہی نام مشکل کشا ہے ہمارا
یہی نام مشکل میں کام آرہا ہے
قیامت میں نجمؔ سخنور جب آئے
تو ہوں اس کے سر پر کملیا کے سائے
کوئی یوں پکارے کہ رَستے کو چھوڑو
رسولِ خدا کا غلام آرہا ہے
شاعر کا نام :- نجم نعمانی