درِ اقدس پہ حالِ دل سنانا یاد آتا ہے

درِ اقدس پہ حالِ دل سنانا یاد آتا ہے

مدینہ یاد آتا ہے


مدینہ یاد آتا ہے

مدینہ یاد آتا ہے


مدینے میں جو گزرا وہ

زمانہ یاد آتا ہے


خدا کے نور کے جلوے

جو دیکھے میں نے مدینے میں


مجھے رہ رہ کے وہ منظر سہانا یاد آتا ہے

مدینہ یاد آتا ہے


ادب سے بیٹھ کر اُس گنبدِ خضراء کے سائے میں

نبی ﷺ کی یاد میں آنسو بہانا یاد آتا ہے

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

حشر کے دن واجب ٹھہرے گی کس کی شفاعت ان کی ان کی

لَحد میں عشقِ رخِ شہ کاداغ لے کے چلے

خبر نہیں کہاں ہُوں، کدھر ہُوں، کیا ہُوں مَیں

اہدی کملی کالی اے

دل ہے سفر ِ طیبہ کو تیار ہمیشہ

بے شک، ہیں بہت، کم نہیں احسانِ مدینہ

کرم کے راز کو علم و خبر رکھتے ہیں

بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں

مدحِ سرکار ہے قرآن کی تائید بھی ہے

جس کو درِ رسول کی قُربت نہیں ملی