میں فقیر کوئے رسول ہوں میں کسی بھی شاہ سے کم نہیں
غمِ مصطفےٰ میرا بخت ہے مجھے اور اب کوئی غم نہیں
میں بہشت لے کے کروں گا کیا مجھے شوق دیدِ ارم نہیں
یہ درِ نبی پہ میری جبیں یہی مرتبہ مرا کم نہیں
جو طلب ہو تیرے سوا کوئی وہ ہوس ہے عشق کے نام پر
یہ مذاق ہے تیرے عشق کا اگر آنکھ ذکر میں نم نہیں
یہ طلب کہ جالی سے جا لگوں یہ ادب کہ پاؤں کہاں رکھوں
یہاں کوئی ایسی جگہ کہاں جہاں ان کے نقش قدم نہیں
ذرا چلئے ان کے دیار تک وہ سکوں ملے گا تجھے وہاں
میں کہوں کہ لوٹ کے گھر چلیں تو کہے خدا قسم نہیں
جو گلی سے ان کی گزر گیا ، تو نصیب اس کا سنور گیا
جو درِ رسول پہ آگیا اسے حشر کا کوئی غم نہیں
تری رفعتوں کا یہ حال ہے کہ بیان ان کا محال ہے
تری مدح جیسی قرآں نے کی میرے ہاتھ میں وہ قلم نہیں
نہ یہ دل ادیبؔ کا بت کدہ نہ یہ مئے پرستوں کا مے کدہ
یہ حرم ہے عشقِ رسول کا یہاں اور کوئی صنم نہیں
شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری
کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب