مَیں پچھلے سال اِن دنوں شھرِ نبیؑ میں تھا
قدموں میں تھا حضُور میں تھا حاضری میں تھا
خوباں کے کوچہ ہائے ملامت سے دُور تو
محبُوبِؐ کبریا کی مقدّس گلی میں تھا
از جسم تا بہ جانم و از چہرہ تابہ دل
دن رات اِک برستی ہُوئی روشنی میں تھا
چھُوتی تھی اُن کے گنبدِ خضرا کو چاندنی
اور مَیں براہِ راست اُسی چاندنی میں تھا
ساری بہار سِمٹی ہُوئی تھی نگاہ میں
سارا چمن بھرا ہُوا دِل کی کلی میں تھا
میری جبیں تھی فرشِ مصلّےٰ پہ سجدہ ریز
اللہ یہ شرف بھی مِری زندگی میں تھا
ہوتا نہ کیُوں میں داخلِ جنّہ کہ جیتے جی
باغِ بہشت دسترسِ آدمی میں تھا
اللہ رے اُن کے لُطف کی مہماں نوازیاں
مصروف ہر گھڑی مِری دل بستگی میں تھا
پیتی تھی رُوح بادۂ عشقِ نبیؐ کے جام
اِک سانس سرخوشی میں تھا اِک بے خودی میں تھا
یکسر وہاں بدل گئی ماہیّتِ الم
آنسو جو سطحِ چشم پہ آیا، خُوشی میں تھا
اللہ بھی قریب تھا، سرکارؐ بھی قریب
لذّت سجُود میں تھی، مزا بندگی میں تھا
اب تُم کو کیا بتاؤں، مَیں کِس کیفیت میں ہُوں
مَیں پچھلے سال اِن دنوں شھرِ نبیؐ میں تھا
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں