مجھے انکی یادوں نے آواز دی ہے

مجھے انکی یادوں نے آواز دی ہے

نظر جھومتی سوئے طیبہ گئی ہے


ہے کیوں مہکا مہکا چمن آج دل کا

مدینے سے ٹھنڈی ہوا آ رہی ہے


یہاں پاؤں رکھنا تو رکھنا ادب سے

مدینے کے راہی یہ شہر نبی ہے


سہارا دیا رحمت مصطفی نے

مری بات اُن کے کرم سے بنی ہے


مقدر پہ کیوں نہ کروں ناز سکھیو

مری میرے داتا نے جھولی بھری ہے


شفاعت کے مژدے سنائے ہیں جسنے

وہ میرا نبی ہے وہ میرا نبی ہے


سجائیں نہ کیوں ہم درودوں کی محفل

ہمیں تو ہمارے نبی کی خوشی ہے


ستائیں گے تجھ کو نہ غم دو جہاں کے

غم مصطفے سے اگر دوستی ہے


سدا ذکر کرتا ہوں خیر الوری کا

مری تو نیازی یہی بندگی ہے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

اللہ اللہ مدینہ ترا بَطحا تیرا

حسبی ربی جل اللہ ما فی قلبی غیر اللہ

جاری چودہ صدیوں سے فیضِ نعلِ سرور ہے

مِلا جو اذنِ حضوری پیام بر کے بغیر

مہکی مہکی اے دل دی گلی ، پلکاں تے بتیاں بلدیاں نیں

جانے کب قریہ ملت پہ برسنے آئے

مُجتبیٰ وی مُصطفیٰ وی

خیر کی خیرات بھی خیر الورٰی

گلستانِ مصطفےٰؐ کا پھول بن

اے حبیبِ رب اکبر! آپ کے ہوتے ہوئے