مجھ کو قسمت سے جو آقاؐ کا زمانہ ملتا
عمر بھر آنکھوں کو سرکارؐ کا جلوہ ملتا
را ت دن خدمت اقدس میں ‘ مَیں حاضر رہتا
اُن کے قدموں کا مِرے ہونٹوں کو بوسہ ملتا
آپؐ کو دیکھتا جب نانِ جویں کھاتے ہوئے
مجھ کو اظہارِ توکّل کا قرینہ ملتا
رات بھر آپؐ جو مصروفِ عبادت رہتے
مجھ کو اخلاص و عقیدت کا نمونہ ملتا
آپؐ کو دیکھتا جب کارِ مشقت کرتے
اپنے ماتھے پہ بھی خود مجھ کو پسینہ ملتا
آپؐ جب کوچہ و بازار کی جانب جاتے
گوشہ گوشہ مجھے نگری کا مہکتا ملتا
دیکھتا آپؐ کو طائف میں دعائیں دیتے
ہر مصیبت میں مجھے صبر کا اسوہ ملتا
اپنے احباب سے جب آپؐ سخن فرماتے
مجھ کو ہر لفظ میں اعجازِ مسیحا ملتا
اور جب آپؐ کا وہ آخری خطبہ ہوتا
سارا ماحول مجھے مائلِ سجدہ ملتا
آپؐ کی سیرتِ اقدس کے ہر اک پہلو میں
مجھ کو قرآنِ مجسم کا صحیفہ ملتا
میں اندھیرے میں بھی طے اپنا سفر کرلیتا
ہر قدم پہ مجھے آقاؐ کا اُجالا ملتا
آپؐ کے نام سے کرتا جو سفر آغاز
سنگ ہوتا نہ کوئی راہ میں کانٹا ملتا
آپؐ جب دیکھتے شفقت سے گناہ گاروں کو
زندہ رہنے کا مجھے حسنِ سلیقہ ملتا
آپؐ کے حجرے کے ماحولِ فقیرانہ سے
زندہ رہنے کا مجھے حسنِ سلیقہ ملتا
خون کے پیاسوں کو جب آپؐ عطا کرتے اماں
ایک پیکر مجھے صد رشکِ فرشتہ ملتا
مختصر یہ کہ جو آقاؐ کا زمانہ ملتا
مجھ کو اقبؔال دو عالم کا خزانہ ملتا
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم