نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

نعت گوئی نے سنبھالا دلِ مضطر میرا

اسوہِ نور نے چمکایا ہے پیکر میرا


میں کہ رہتا ہوں تری یاد میں گم شاہِ عرب

پانی بھر جاتے ہیں دارا و سکندر میرا


اہلِ جنت کو سنانی ہے مجھے نعتِ نبی

ہو پرِ روحِ امیں کاش کہ منبر میرا


جس کو کہتے ہیں تخیّل، بہ طفیلِ مدحت

محوِ پرواز ہے آکاش سے اوپر میرا


مصطفٰی بولے سرِ خیبرِ ناقابلِ مات

تیرے نقصان کو کافی ہے یہ حیدر میرا


مانگنا اذن وہاں آنے کا اے بادِ صبا

حالِ دل جانِ دو عالم کو سنا کر میرا


فردِ عصیانِ تبسم پہ چلے بادِ کرم

مجھ کو لے جائے جو طیبہ میں مقدر میرا

دیگر کلام

مدعائے کن فکاں ہیں رحمت اللعالمیں

کوئی کہیں ہو اگر آپؐ کی نگاہ میں ہے

عام مومن نہیں جب ولی کی طرح

میرے تو کریموں کی بات ہی نرالی ہے

ایک پل کا وصال دے موہے

پھر مجھے آقا مدینے میں بُلایا شکریہ

شوق باریاب ہو گیا

ہر ویلے عرضاں کردا ہاں سرکار مدینہ ویکھ لواں

رکھ لیں وہ جو در پر مجھے دربان وغیرہ

اُن کی یاد آئی تو بھر آئے سحابِ مژگاں