نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

نہیں یہ عرض کہ آسُودۂ نِعَم رکھیے

بہ عِزّ و شہرتِ دُنیا نہ محتشم رکھیے


نہ تخت و تاج کا مالک شہِ اُمَم ! رکھیے

حضور ! اتنی عطا مجھ پہ کم سے کم رکھیے


’’نیاز مند کو من جملۂ خدم رکھیے‘‘

بِچھے ہیں کب سے سرِ راہ میرے قلب و نظر


بَرایں امید کہ ہوگا کبھی اِدھر سے گزر

جب آپ آئیں کروں عرض میں بَدیدۂِ تَر


یہ سر ہے یہ ہیں نگاہیں یہ دل ہے یہ ہے جگر

’’حضور آپ جہاں چاہیے قدم رکھیے‘‘


جو رشکِ منظرِ جنّت ہے اُس نظارے کا

ہے رتبہ عرش سے اونچا جس آستانے کا


تجلّیاتِ الٰہی کے خاص جلوے کا

نظارہ کیجے عقیدت سے ان کے روضے کا


’’نگاہِ شوق میں باغیچۂِ اِرم رکھیے‘‘

مصیبتوں کی تپش سے رہوں حفاظت میں


جُھلس کے شُعلۂ غم سے پڑوں نہ آفت میں

یہاں بھی اور وہاں گرمئِ قیامت میں


غموں کی دھوپ میں آلام کی تمازت میں

’’حضور ! سر پہ مِرے دامنِ کرم رکھیے‘‘


حضور ! مُوسَیِٔ دل کو نوید ہوجائے

نظر میں مَنظرِ اَیمَن کشید ہوجائے


کرم ہو ! حُسنِ رَاَی الحَق کی دید ہوجائے

حضور ! اب تو غلاموں کی عید ہو جائے


’’کہ کچھ تو پاسِ تقاضائے چشمِ نم رکھیے‘‘

ہُموم و رنجِ زمانہ کے ہم ستائے ہیں


خطا و جرم و مَعاصی کے اَبر چھائے ہیں

ہمارے حوصلے "جَاءُوْکَ" نے بڑھائے ہیں


حضور میں بڑی امّید لے کے آئے ہیں

’’ہمارے دستِ تمنّا کا کچھ بھرم رکھیے‘‘


اُٹھے عروسِ معانی سے یوں نقابِ سخن

ہو محوِ نعتِ یَمِ لُطف ہر حبابِ سخن


کُھلے نہ شاہوں کی مدح و ثنا میں بابِ سخن

نہ مدح غیر کی شرکت میں ہو کتابِ سخن


’’کہ وقف ان کے بیاں کے لیے قلم رکھیے‘‘

یہی ہے قولِ مُعَظَّم کہ شک نہیں امجد !


بنے گی مَطلعِ اَنوار پھر جبیں امجد !

حُدودِ کَون ہوں ساری تَہِ نگیں امجد !


ملے گی عظمتِ کونین بالیقیں امجد !

سرِ نیاز اگر ان کے در پہ خَم رکھیے"

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

مَیں کیسے مان لوں

سنی آہٹ تری دیکھا حرم ہے

تلاشِ تابشِ انوار ہے کہیں تو فضول

عرشی فرشی رل کے دین مبارک باد حلیمہؓ نوں

اُسے تو کُچھ بھی ملا نہیں ہے

شمعِ بدرالدجیٰ ﷺ پھر جلادو

میں نے شہرِ مدینہ دیکھا

تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دِیں

اللہ کرم کرنا اللہ کرم کرنا

ہر نام سے جو نام تقدس میں بڑا ہے