پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

پڑا ہوں سرِ سنگِ در مورے آقا

ادھر بھی کرم کی نظر مورے آقا


کٹھن کس قدر تھا وہ پل سر زمیں پر

گئے جب تھے معراج پر مورے آقا


میسر ہو جس رات خوابِ زیارت

نہ اس رات کی ہو سحر مورے آقا


وہی پل تو ہیں یاد آنے کے قابل

جو در پر ہوئے ہیں بسر مورے آقا


کریں معبدِ نعت میں حرف سجدے

عنایت ہو ایسا ہنر مورے آقا


دیارِ منور کی یادوں میں اکثر

مری آنکھ رہتی ہے تر مورے آقا


سخن ہے مرا مثلِ شاخِ بریدہ

ودیعت ہَوں برگ و ثمر مورے آقا


بنے قلبِ اشفاقؔ ایسا مزکٰی

رہے آپ کا مستقر مورے آقا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

جب بھی گھیرا ہے دُکھوں نے تو ثنا خوانی کی

روشن جن کے عشق سے سینے ہوتے ہیں

فضا میں نکہتِ صلِ علیٰ ہے

ہر طرف غل کس لیے صل علی کا آج ہے

ہے میری آرزو آواں مدینے یا رسول اللہ

اُن کے در کے فیض سے سرشار ہونا تھا، ہوئے

ادا کی لے رہی ہے عرش کی پہلو نشیں ہوکر

ہے یہ دیوان اُس کی مدحت میں

مرا راز کب مرا راز ہے

صبحِ ازل کا ہے وہ تارہ