پیا کو پتیاں لکھ لکھ بھیجوں تجھ بن رہا نہ جائے

پیا کو پتیاں لکھ لکھ بھیجوں تجھ بن رہا نہ جائے

کا سے کروں میں من کی بتیاں جگ سے کہا نہ جائے


بسی ہیں مور سے دل کے بھیتر سجناں تو ری یادیں

پاگل منوا روز کرت ہے ملنے کی فریادیں


نام خدا کے درس دکھیو ہجر سہانہ جائے

وہی پپہیے پی پی بولیں پیا ہیں جن کے دور


تڑپت ہیں دن رات ملن کو دو آنکھیں مجبور

دور ہے منزل راہ کٹھن ہے اب تو چلا نہ جائے


پگ پگ گھومیں پیار کے ڈاکو سنبھل سنبھل کے جیو

بادِ صبا تو مورے پیاسے رو رو کے یہ کہیو


بن تو رے درشن کے اب تو ہم سے جیا نہ جائے

جب سے پیا پردیس گئے ہو ہم جیتے بھی موئے


توری یاد میں پاگل منوا بھیتر بھیتر روئے

تمرے دورے ہمری آقا کا ہے صدا نہ جائے


پنگھٹ پہ وہ بھریں گھڑولی لج سے جن کے پاس

لج گھڑولی پاس ہے، بن کے وہی بجھائیں پیاس


نیر بہیں اکھین سے نیازی اور لکھا نہ جائے

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

تیرے گلشن دے پھل بوٹے رہن ساوے دعا کرناں

بے نیازِ دو جہاں ہوں آپؐ کا ہونے کے بعد

اکھیاں دے بوہے کھلے نیں دل سیج وچھا کے بیٹھا اے

میں جب سرکار بطحا کے در اقدس پہ جا نکلا

کیہہ اس توں ہور وڈی نیک نامی

کرے چارہ سازی زِیارت کسی کی

اوہ ریجھ کدی نہ سکدے نے جنت دیاں لالہ زاراں تے

حج کا پائے گا شَرَف میرا بلال اُمّید ہے

طوبے میں جو سب سے اُونچی نازُک سیدھی نکلی شاخ

رب نے جس کی مانی ہے تم اس نبیؐ کو مان لو