قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

قلم بہرِ مدحت اٹھانے لگے ہیں

مدینے سے الفاظ آنے لگے ہیں


کسی کو یہ بس چاند سورج لگے ہیں

ہمیں تو نبی کے دیوانے لگے ہیں


مدینے پہنچ کر بھلا دیں یہ باتیں

پہنچنے میں کتنے زمانے لگے ہیں


حضور آپ کا نام لب پہ سجا کر

مصائب کو ہم آزمانے لگے ہیں


یہ بس چاہتِ مصطفٰی کا اثر ہے

ہمیں دیکھو، ہم چاہے جانے لگے ہیں


فرشتو رکو اتنی جلدی بھی کیا ہے

وہ میرے نبی ہیں نا، آنے لگے ہیں


ترے آستانے کے دیوار و در بھی

ہمیں یاد بن کر ستانے لگے ہیں


اسیرانِ حسنِ مدینہ کو رضوان

آوازیں دے کر بلانے لگے ہیں


بھلا اس سے بڑھ کر کریمی بھی ہو گی

تبسم سے بھی طیبہ جانے لگے ہیں

دیگر کلام

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

آپؐ آئے مصطفائی کے لئے

حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے

کُھل گئیں سرحدیں لامکانی تہِ آسماں آ گئی

کرم جو آپ کا اے سیدِ اَبرار ہوجائے

دل میں سرکارؐ کا غم رکھ لینا

یوں ترا اسم گرامی میرے لب پر آگیا

آئی بہارِ زیست مُقدّ ر سَنبھل گئے

آگیا ہے چین دل کو در تمھارا دیکھ کر

میں صرف حرفِ تمنا ہوں یا رسولؐ اللہ