قرآنِ مقدس نے کہا کچھ بھی نہیں ہے
جو ان کا نہیں ہے بخدا کچھ بھی نہیں ہے
تم پوچھتے پھرتے ہو کہ مرشد نے دِیا کیا
کیا عشقِ محمدﷺ کی غذا کچھ بھی نہیں ہے؟
وہ خواب میں کیا آئے کہ میرے لئے گویا
بیدار نگاہی میں رہا کچھ بھی نہیں ہے
جس دن سے بنا زینتِ دل نامِ محمدﷺ
لگتا ہے مِرے دل سے بڑا کچھ بھی نہیں ہے
دنیا کی محبت میں وفا ہارنے والے!
سن! عاشقِ طیبہ کا گیا کچھ بھی نہیں ہے
دنیا کی تباہی سے حفاظت کی وجہ پوچھ
اِک شہرِ مدینہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
جس شخص نے جِھیلا ہو غمِ ہجرِ مدینہ
اُس کیلئے پُر درد قضا کچھ بھی نہیں ہے
اب دیکھ لیا ہے انہیں، اے لذّتِ دنیا
تیرے لئے اب دل میں بچا کچھ بھی نہیں ہے
دوزخ تِرے عاشق کو بھلا کیسے جَلا دے
سورج کے مقابل میں دِیا کچھ بھی نہیں ہے
لجپال تِرے دستِ عطا صفت کے آگے
سہمے ہوئے منگتوں کی صدا کچھ بھی نہیں ہے
بس جی نہیں لگتا مِرا بے شہرِ مدینہ
کہنے کو مجھے اور ہُوا کچھ بھی نہیں ہے
چشمان و دل و جان و تخیّل کی اڑانیں
سب کچھ ہے دیا تیرا، مِرا کچھ بھی نہیں ہے
آیا تھا ملاقات کو اِک زائرِ طیبہ
اب قلبِ تبسم کا پتہ کچھ بھی نہیں ہے
شاعر کا نام :- حافظ محمد ابوبکر تبسمؔ
کتاب کا نام :- حسن الکلام فی مدح خیر الانامؐ