سانسوں میں بس گیا ہے ترا نام یا نبی

سانسوں میں بس گیا ہے ترا نام یا نبی

دھڑکن میں گونجتا ہے ترا نام یا نبی


کیسی خیامِ جاں میں یہ مہکار ہے مچی

خوشبو ئیں بانٹتا ہے ترا نام یا نبی


روشن ہیں جس سے ساری ہی راہیں حیات کی

خورشیدِ نُور زا ہے ترا نام یا نبی


رہتا ہے جیسے کوئی مرے دل کے آس پاس

وحشت میں آسرا ہے ترا نام یا نبی


ہر غم کو ٹالتے ہیں درودو سلام سے

کیا خوب غم کشا ہے ترا نام یا نبی


لہجوں میں گھُل رہی ہے زمانوں سے اک مٹھاس

جس جس نے بھی لیا ہے ترا نام یا نبی


ہونٹوں پہ مرتے دم بھی رہے تیرا اسم ہی

کفنی پہ لکھ لیا ہے ترا نام یا نبی


نُوری کو قبر میں بھی ترا نام ہو نصیب

لب پر سدا رہا ہے ترا نام یا نبی

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے

ویرانے آباد نہ ہوتے، ایک جو ان کی ذات نہ ہوتی

خدا کا فضل ہے رحمت ہے بارھویں تاریخ

دیارمحبوبؐ کے مسافر ہمیں دعاؤں میں یاد رکھنا

جب ہجرِ طیبہ نے مُجھے مضطر بنا دیا

خدا کی حمد نعتِ مصطفیٰ ہے

جدھر دیکھوں مدینے کا حرم ہو

خدایا میرے گھر میں بھی مدینے کا قمر اترے

قرضِ سنت و قرآں کا نادہندہ ہوں

ہوں جو یادِ رُخِ پرنور میں مرغانِ قفس