سنگ کی جب بارشیں شہ پہ کیں اغیار نے

سنگ کی جب بارشیں شہ پہ کیں اغیار نے

زخم کھا کر دی دعا سیدِ ابرار نے


ہوگئی اس جگ میں جب گمرہی حد سے سوا

جگ میں بھیجا راہبر جگ کے پالن ہار نے


کس قدر تھا پُر اثر حسنِ خلقِ مصطفیٰؐ

فتح دل کو کر لیا شاہ کی گفتار نے


چار سو الحاد کی بڑھ گئیں جب ظلمتیں

دہر کو روشن کیا مہرِ حق انوار نے


سنگ دل جو تھے انھیں موم صورت کردیا

آپ کے اخلاق نے، آپ کے کردار نے


شہرِ طیبہ کی فضا کو منور کر دیا

آپ کی دہلیز کے حسنِ پُر انوار نے


پا لیا ایثار سے افضلیت کا شرف

حق رفاقت کا ادا کر کے یارِ غار نے


صاحبِ ایماں ہوئے ہیں شوق سے حضرت عمر

خوف سے تھرا گئے جب سنا کفار نے


صاحبِ زر کو عطا کی سخاوت کی ادا

حضرتِ عثماں کے اس جذبۂ ایثار نے


طیش آنے پر کیا دشمنِ دیں کو معاف

مات دی یوں نفس کو حیدرِ کرار نے


فکرِ احسؔن کو ملی نعت گوئی سے جلا

بخش دی پاکیزگی، مدحتِ سرکار نے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

یوں ذہن میں جمالِ رسالت سماگیا

اوج ہم خواب کا بھی دیکھیں گے

صدقہ تیری چوکھٹ کا شہا مانگ رہے ہیں

مدینے کا یا رَبّ دِکھا راستہ

وہی ماحول کی پاکیزہ لطافت دیکھی

ترا وجود ہے روشن پیام خوشبو ہے

پِھر گیا سمجھو گناہوں پہ کرم کا جھاڑو

بند کر ساقیا نہ ابھی میکدہ میں ہوں امیدوار آخری آخری

میرا جینا اے اللہ! اب تو ایسا جینا ہو

میں دن رات نعتِ نبی لکھ رہا ہوں