سرکار پڑی جب سے نظر آپ کے در پر
دل رہتا ہے ہر شام و سحر آپ کے در پر
گزری ہے مری عمر عبث رحمتِ عالم
باقی ہے جو ہو جائے بسرآپ کے در پر
وسواس وہاں گھرنہیں کرتے کبھی دل میں
شیطاں کا نہیں ہوتا گزر آپ کے در پر
یاقوت و زمرد بھی نہیں ان کے مقابل
ٹپکے ہیں جو آنکھوں سے گہر آپ کے در پر
جب چاہےچلی آئےاجل خوف نہیں ہے
یا سیدِ ابرار مگر آپ کے در پر
تب جاکے زمانے کو کیا کرتا ہے روشن
گھستا ہے جبیں پہلے قمر آپ کے در پر
لوگ اس کو مقدر کا سکندر کہا کرتے
رہتا جو شفیقؔ آٹھوں پہر آپ کے درپر
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا