شفیعِ حشر ہی کے سر شفاعتوں کا تاج ہے

شفیعِ حشر ہی کے سر شفاعتوں کا تاج ہے

بروزِ حشر ہر بشر کو ان کی احتیاج ہے


رگوں میں ہیں غلامیٔ نبی کی شادمانیاں

ہمارے دل کی مملکت پہ مصطفیٰ کا راج ہے


ہنر عطا ہوا ہے مجھ کو دائمی وصال کا

تصورِ حضور دردِ ہجر کا علاج ہے


وہ رنگ و نسل اور ذات پات دیکھتے نہیں

درِ رسول پر نوازشات کا رواج ہے


فقط نعوت کے لئے ہے وقف میری زندگی

نہ اور کوئی ہے شغف نہ کوئی کام کاج ہے


مجھے ہے جن کی نعت کا جنوں کی حد تلک شغف

وہی شفیعِ حشر ہیں انہی کے ہاتھ لاج ہے


کمالِ شاہِ دو جہان حیرتوں کے سلسلے

جمال رنگ و نور کا حسین امتزاج ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

نِشاطِ زندگانی تیرا غم ہے یارسول اللہ

مقصُودِ کائِنات

مجھ پہ چشم عطا کیجئے

ذکر کی محفل جما دینا بھی اُن کی نعت ہے

محمد ِ مصطفی سب سے آخِری نبی

آسماں گر تیرے تلووں کا نظارہ کرتا

جس کے آگے حسن پھیکا ہے ہر اک ایوان کا

آزار خدا دیوے تے آزار محمّدؐ دا

یامصطَفٰے عطا ہو اب اِذن، حاضِری کا

خطا کار چوکھٹ پہ آئے ہوئے ہیں