شاہؐ کے فیض سے انسان کا ہر کام چلا
قلب روشن ہُوا، توقیر بڑھی، نام چلا
سلسلہ ایسا کوئی گردشِ ایّام! چلا
راہِ طیبہ میں مجھے تُو، سحر و شام چلا!
جس فرشتے نے کیا فرش سے تا عرش سفر
چُوم کر روضۂ اقدس کے دَر و بام چلا
سب کا سرمایہ ہے یہ دینِ رسوؐلِ عربی
ایسا سکّہ، کہ زمانے میں سرِ عام چلا
تشنگی ڈوب گئی موجۂ سیرابی میں
حوضِ کوثر پہ عجب سلسلۂ جام چلا
گُمرہی اُس کا نصیبہ ہے، تباہی تقدیر
ہو کے دنیا میں جو بیگانہ اسلام چلا
اک جھلک اپنی دکھا دو، کہ ٹھہر جائے یہ دل
ورنہ ہاتھوں سے مِرے تو سنِ ایّام چلا
اُس جواں بخت کے منزل نے قدم چُومے ہیں
جادۂ عشقِ محمدؐ میں جو دوگام چلا
مرحلہ پُرسشِ اعمال کا تھا سخت نصیرؔ!
مِل گیا اُن کا سہارا، تو کہیں کام چلا
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست