شاعری کے ماتھے پر ان کی بات مہکے گی

شاعری کے ماتھے پر ان کی بات مہکے گی

لفظ مسکرائیں گے اور نعت مہکے گی


دیدِ شاہ کی خواہش بند آنکھ میں رکھ لوں

آنکھ میں یہ کستوری ساری رات مہکے گی


صرف تذکرہ کیجے والضحیٰ کے چہرے کا

لٹ حسین زلفوں کی سات سات مہکے گی


میری روح بطحا کے بوستان میں جا کر

ڈال ڈال جھومے گی پات پات مہکے گی


جب بھی لکھا جائے گا نام سرورِ دیں کا

مشکبو قلم ہوگا اور دوات مہکے گی


مشک عشقِ سرور کا دل میں رکھ لیا جائے

تب خیال مہکے گا تب حیات مہکے گی


تیر کھائے اصغر سے کہہ دیا فرشتوں نے

کربلا کے پھولوں سے کائنات مہکے گی

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

اُن کا چہرہ ، کتاب کی باتیں

خوں کے پیاسوں کی جاں بخشنے آگئے

ضیائے محفلِ شب میں تجلیِ سحر میں ہے

جلد ہم عازِمِ گلزارِ مدینہ ہوں گے

اگر العطش لب پہ ہم باندھتے ہیں

سکینت دل کی تیری ہی بدولت ساتھ رہتی ہے

دل میں ہو یاد تری گوشہء تنہائی ہو

لکھتا رہوں میں حمدِ خدا نعتِ رسالت

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

کوئی کیا جانے کیا ہے مے خانہ