ضیائے محفلِ شب میں تجلیِ سحر میں ہے

ضیائے محفلِ شب میں تجلیِ سحر میں ہے

جمالِ روئے زیبائے نبیؐ شمس و قمر میں ہے


فرنگی اقتدا میں ہے نہ تقلیدِ دِگر میں ہے

فلاحِ دین و دنیا طاعتِ خیر البشر میں ہے


بشر کیا جان پائے منزلِ رفعت پیمبر کی

حدِ جبریل بھی سرکار کی جب رہ گزر میں ہے


دعا دے کر ستم گاروں کو بھی آقاؐ نے بتلایا

نمایاں خیر کا پہلو خطا کے گرگزر میں ہے


وہ کیا خاطر میں لائے حسنِ ایوانِ شہنشاہی

جمالِ گنبدِ خضریٰ بسا جس کی نظر میں ہے


رسالت کی گواہی دے رہی ہیں ننھی کنکریاں

شعورِ آگہی بوجہل سے بہتر حجر میں ہے


جہانِ شش جہت، گُل آسماں، لوح و قلم، کرسی

وجود ان کا طفیلِ آمدِ خیر البشر میں ہے


خدا نے کیسی کیسی عظمتیں بخشیں صحابہ کو

ہیں طیبہ میں عمر ایران کا منظر نظر میں ہے


ملے گی کامرانی دونوں عالم کی تجھے احسؔن

اگر سودائے حُبِ سرورِ دیں تیرے سر میں ہے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

کدوں سوالی ہاں اہلِ دہور دَر در دا

کچھ اور خیالوں میں لایا ہی نہیں جاتا

کملی والے میں صدقے تری یاد توں آکے جو بیقراراں دے کم آگئی

ضیا فروز ہے دل میں حُضورؐ کی نسبت

ہے مدینے سے مرے قلب کا رشتہ محفوظ

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گلِ چیدہ

سر رکھدے یار دے قدماں تے تیری عشق نماز ادا ہووے

جدوں تیک دل دی صفائی نئیں ہونی

بے شک، ہیں بہت، کم نہیں احسانِ مدینہ

موسیٰ اُتے چھڈ دے گلاں طور دیاں