شوقِ درِ رسول میں گھر بار چھوڑ کر

شوقِ درِ رسول میں گھر بار چھوڑ کر

آئے ہوئے ہیں دلبر و دلدار چھوڑ کر


مدت سے ہے بسی ہوئی دل میں یہ آرزو

جائیں مدینہ سارا یہ سنسار چھوڑ کر


دنیا میں معتبر رہیں یہ سوچ ہے غلط

سرکارؐ کا دیا ہوا کردار چھوڑ کر


طیبہ کی سرزمین ہے جنت زمین پر

لوٹے گا کون خلد کے آثار چھوڑ کر


جس در پہ آ رہے ہیں ملائک بھی رات دن

رکھا ہے کیا جہاں میں وہ دربار چھوڑ کر


بعد از خدا ہیں آپ ہی سب کچھ مرے کریم!

جائیں کہاں پھر آپ کو سرکارؐ چھوڑ کر


منزل ملے جلیل کٹھن راستوں کے بعد

ممکن نہیں ہے قافلہ سالار چھوڑ کر

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

تم نقشِ تمنائے قلمدان رضا ہو

میں کردا ہاں سدا ایہہ التجاواں یا رسول الله

نبی ﷺ کو چاہنے والے غمِ دنیا نہیں کرتے

منارِ رشدو ہدایت، سحابِ رحمت و جُود

گلاب فکر ہے ان سے عمل بھی لالۂ خیر

جھلیاں ہنیریاں تے رحمتاں سنبھالیا

کراں فریاد میں تڑپاں تے روواں یارسول اللہ

وہ رازداں معنی تفسیر جاھدو

شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

آؤ محفل میں غلامانِ رسولِ عربی