سوتے میں نعتِ پاک ہوئی ہے کبھی کبھی

سوتے میں نعتِ پاک ہوئی ہے کبھی کبھی

صد شکر یوں بھی آنکھ لگی ہے کبھی کبھی


جیسے ریاض جنّہ میں اب بھی کھڑا ہوں میں

بزم خیال یوں بھی سجی ہے کبھی کبھی


جیسے اذاں یہاں کی نہیں ہے وہاں کی ہے

طیبہ کی ہر اذاں یوں لگی ہے کبھی کبھی


جیسے یہاں نہیں ہوں میں صحنِ حرم میں ہوں

جیسے وہیں نماز پڑھی ہے کبھی کبھی


جیسے کوئی مدینے سے خط آیا میرے نام

دستک سی دل پہ یوں بھی ہوئی ہے کبھی کبھی


جیسے وہاں بھی نعت سنائی گئی مِری

صل علیٰ کی گونج سنی ہے کبھی کبھی


جیسے میرا بلاوا مدینے سے آگیا

دھڑکن سی دل میں یوں بھی ہوئی ہے کبھی کبھی


طیبہ کے پھول جیسے مِرے گھر میں کھل گئے

ایسی ہوا بھی ایک چلی ہے کبھی کبھی


خوشبو سے یک بیک مِرا کمرہ مہک گیا

اقبؔال یوں بھی آنکھ کھلی ہے کبھی کبھی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

سب اندھیروں کو مٹانے کےلیے آپ آئے

روز محشر تھیں ہر سمت مایوسیاں

مدینے سے بلاوا آ رہا ہے

کچھ نہیں مانگتا میں مولا تیری ہستی سے

نعت کہنا شعار ہو جائے

ماہ ربیع الثانی چڑھیا

ریاضت پر، قیادت پر، تکلم پر، تبسم پر

ایک عرصہ ہو گیا بیٹھے ہیں ہم

سارے سوہنیاں تو سوہنا

خدا والے ہی جانیں ذاتِ محبوبِؐ خدا کیا ہے