صبح میلادالنبی ہے کیا سہانا نور ہے

صبح میلادالنبی ہے کیا سہانا نور ہے

آگیا وہ نور والا جس کا سارا نور ہے


بزم طیبہ کیسی نورانی ہے، کتنا نور ہے

نور ہے پھر نور کس کا جو سراپا نور ہے


عرش نوری، فرش نوری، ذرہ ذرہ نور ہے

نور کا دربار ہے، ہر سمت چھایا نور ہے


ڈالی ڈالی نور کی ہے پتا پتا نور ہے

گل کھلے ہیں نور کے گلشن میں مہکا نور ہے


میں تہی دامن ہوں داتا تیرے گھر کا نور ہے

لا الٹ دے آج اس دامن میں جتنا نور ہے


جگمگا اٹھے ہیں عرش و فرش و کرسی نور سے

اللہ اللہ کیا چمک، کیا روشنی، کیا نور ہے


جذب ہے ہر چشم بینا میں اسی سائے کا نور

نور کا سایہ نظر کیا آئے سایا نور ہے


تجھ سے پائی ہے تجلی چشم مہر و ماہ نے

تو وہ تارا ہے کہ اعلیٰ نور والا نور ہے


جس نے جو کچھ نور پایا، سب تری سرکار سے

نور کی سرکار کا، تو سب سے پہلا نور ہے


اس طرف بھی اک نگاہِ نور اے نور الہٰ

میں سراپا معصیت ہوں تو سراپا نور ہے


اے منور، ایک میری ہی نظر پر بس نہیں

ہر نظر ہر آنکھ کے پردے میں اس کا نور ہے

شاعر کا نام :- منور بدایونی

دیگر کلام

جو واسطہ نبیﷺ کا دے کر صدا نہ دے گا

ہر اک شے دی اصل اصول

اللہ! مجھے حافِظِ قُراٰن بنادے

اپنے آقا کے

لے کے آئے مدینہ سے ہم روشنی

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں

جاواں صدقے مدینے دے سلطان توں دو جہاں جس دی خاطر بنائے گئے

ایسا کریم ایسا سخی اور کون ہے

زندگی کا مسئلہ ہے واپسی