تری ذات مصدرِ ہر ضیا ترا نام مطلعِ نور ہے

تری ذات مصدرِ ہر ضیا ترا نام مطلعِ نور ہے

ترا درد حاصلِ بندگی ترا غم متاعِ سرور ہے


یہ یقیں فروز قیاس ہے تو ہر اک مقام سے پاس ہے

نظر آرہے ہیں جو فاصلے یہ مری نظر کا قصور ہے


جو جہاں نما جو خدا نما وہ جمال ان کا جمال ہے

جو کٹے خیالِ حضورؐ میں وہ حیات نور ہی نور ہے


مرا ذکر و فکر مرا سخن مرا سوز و ساز یہ میرا فن

تری نعت بن کے سنور گئے یہ ترے کرم کا ظہور ہے


ترے راستے میں جو آگیا وہ مراد زیست کو پا گیا

اسے زندگی کے علوم پر ترے فیض ہی سے عبور ہے


مرے پاس کچھ بھی نہیں تو کیا مرے لاج والے کی خیر ہو

مجھے ناز انکے کرم پہ ہے مجھے مصطفؐےٰ پہ غرور ہے


جو تمہارے غم کا اسیر ہے وہ بڑا امیرو کبیر ہے

جو تمہارے در کا فقیر ہے غمِ دو جہاں سے وہ دور ہے


جو طلب سے پہلے کرے عطا جو صدا سے پہلے سنے صدا

مری لاج والا وہی تو ہے جو حبیبؐ ِ ربِّ غفور ہے


تری آرزو تری جستجو تری گفتگو مری آبرو

مری مستیوں کا بھرم ہے جو تری یاد ہی کا سرور ہے


تھے جہاں میں اور بھی مشغلےتھے جہاں میں اور بھی تذکرے

ترے ذکر ہی سے سکوں ملا کوئی بات اس میں ضرور ہے


ہے تمہارا خالدِؔ بینوا اسے بے سبب ہی نواز دو

نہ اسے قرینہء آرزو نہ اسے طلب کا شعور ہے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

راہیا سوہنیا مدینے وچہ جا کے تے میرا وی سلام آکھ دئیں

ڈب دے کدی نئیں جیہڑے نے تارے حضور دے

رُخ پہ نقاب ڈال کر خوب کہا کے دیکھ لے

یہ ان کا کرم ان کی عنائیت ہے عطا ہے

رمزِ وحدت کیا ہے ذاتِ مصطفیٰؐ جانے فقط

گلی کوچہ مثالِ کہکشاں ہے

اُن کے دربارِ اقدس میں جب بھی کوئی

ملکِ خاصِ کِبریا ہو

کتنا پر نور طیبہ کا منظر ہے دیکھ

بے مہر ساعتوں کو ثمر بار کر دیا