تمہارےدَر پہ پہنچنے کو بے قرار ہیں لوگ

تمہارےدَر پہ پہنچنے کو بے قرار ہیں لوگ

تمہارے صدقے ہیں، قربان ہیں ، نثار ہیں لوگ


تمہِیں ہو آیہ رحمت ، تمہِیں ہو حاصلِ دیں

تمہارے سائے میں آسودہ بے شمار ہیں لوگ


تمہاری ایک توجّہ سے پار ہے بیڑا

یہ اور بات کہ بے حد گناہگار ہیں لوگ


اب دَر کے گداؤں کی جھولیاں بھر دو

کرم کی بھیک مِلے، محوِ انتظار ہیں لوگ


تمہارا حُسن ہے ائینہ جمالِ خدا

برائے دید بہر حال بیقرار ہیں لوگ


ہے اسمِ پاک تمہارا کلیدِ قُفلِ مراد

اِس ایک نام کے صدقے میں کامگار ہیں لوگ


تمہارے در پہ گزرتے ہیں روز و شب جن کے

شگفتگی میں وہی توسدا بہار ہیں لوگ


تمہارے نام پہ جو مَر مِٹیں ، وہ غُنچہ وگُل

جو یہ نہیں تو نگاہِ چمن میں خار ہیں لوگ


خدائی بھر میں ہے اُن کے جمال کا شُہرو

تمہِیں نصیرؔ نہیں اور بھی نثار ہیں لوگ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

یاد تیری نے کملیاں کیتا کملی والیا کرم کما

دامنِ دل مرا کھنچنے لگا بطحا کی طرف

دہر سے ہوگئی اصنام پرستی منسوخ

اِمتیازات مِٹانے کے لیے آپؐ آئے

تیری صورت سے منور ہے اجالوں کا جمال

احمدؐ احمؐد بولے دل

اکھاں وچہ اتھرو نہیں رُکدے درداں نے گھیرا پایا اے

یا مصطفٰی خیرالوریٰ تیرے جیا کوئی نہیں

دھو کر زباں کو زمزم و عرقِ گلاب سے

نعت کا ذوق ملا حرف کی جاگیر ملی