اُن کی نوازشات کا ہے میرے سَر پہ ہاتھ

اُن کی نوازشات کا ہے میرے سَر پہ ہاتھ

کہتا ہُوں رکھ کے مَیں درِ خیرُ البشرؐ پہ ہاتھ


مَیں طائرِ ریاضِ رسولِؐ انام ہُوں

صیّاد کیا بڑھائے مِرے بال و پَر پہ ہاتھ


اب منزلِ مُراد سے پہلے نہیں قیام

ذوقِ سفر نے ڈال دیئے رہگزر پہ ہاتھ


دیوانۂ نبیؐ کی عجب آن بان ہے

سودا ہے سَر میں، دل میں تڑپ ہے، جگر پہ ہاتھ


اُن کی نظر پڑی تو دلِ زار اُچھل پڑا

جیسے کسی نے رکھ دیا اک بے خبر پہ ہاتھ


سمجھو تو کس کے لُطف نے بخشیں بصارتیں

دیکھو تو کس کا ہے مِرے ذوقِ نظر پہ ہاتھ


اے ربّ کائنات! یہ ہے میر آرزو

ہنگامِ نزع میرا ہو اُس سنگِ دَر پہ ہاتھ


آپس کی رنجشوں میں اُلجھنا ہے گُمرہی

کرتا ہے کون صاف بھَلا اپنے گھر پہ ہاتھ


درکار ہے نصیرؔ اُنہیں دولتِ بقا

رکھتے نہیں ہیں اُن کے گدا سیم و زر پہ ہاتھ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

درِ نبی سے ہے وابسطہ نسبتیں اپنی

سرخیاں حبِ نبی کی جس کے دل میں رچ گئیں

آپؐ کا رحمت بھرا ہے آستاں سب کے لیے

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

تمہارے رُخسار کی تجلی تجلیء نُورِ سَرمدی ہَے

مل گئی بھیک آپؐ کے در کی

راحتِ قلب و جاں رحمت بیکراں سرور مرسلان تو کہاں میں کہاں

رحمتِ بے کراں مدینہ ہے

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا

دلوں کے انگناں چڑھی ہے رنگناں ہیں پھول مہکے بہار کے