اُن کی طرف بڑھیں گے نہ لُطفِ خد اکے ہاتھ

اُن کی طرف بڑھیں گے نہ لُطفِ خد اکے ہاتھ

جو پھر گئے رسولِؐ خدا سے چھُڑا کے ہاتھ


دل چاہتا ہے خاکِ درِ پاک چُوم لُوں

یہ بات لگ نہ جائے کہیں سے، صبا کے ہاتھ


بس اک نگاہِ لُطف کا اُمّیدوار ہُوں

کچھ اور ہو طلب، تو کٹیں التجا کے ہاتھ


ہو گا کرم یہ چاہنے والوں پہ حشر میں

اپنی طرف بُلائیں گے آقاؐ، اُٹھا کے ہاتھ


جو اُن پہ مَر مٹے اُنہیں یُوں زندگی مِلی

نقدِ حیات، لُوٹ نہ پائے فنا کے ہاتھ


اُس کا نہ مول اور نہ اُس کی مثال ہے

جو بِک چُکا ہو اُن کی ادائے عطا کے ہاتھ


طاعت ہے فرض ہم پہ خدا و رسولؐ کی

عزت خدا کے ہاتھ ہے یا مصطفیٰؐ کے ہاتھ


بیٹھے ہیں آج ذوقِ توکُّل سے مطمئن

جو پوچھتے تھے اپنا مقّدر دِکھا کے ہاتھ


ہر سُو ہیں اُن کے نقشِ کفِ پا حجاز میں

اللہ نے کیا، تو لگا لیں گے جا کے ہاتھ


اُمّید ہے دعائے حُضوری قبول ہو

رُودادِ شوق بھیج تو دی ہے صبا کے ہاتھ


مجھ کو ہے بس نصیرؔ شفیعُؐ الوریٰ کی دُھن

پھیریں گے میرے سَر پہ وہی، مُسکرا کے ہاتھ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

جاری اے فیض زمانے تے سرکار مدینے والے دا

کانِ کرامت شانِ شفاعت صلی اللہ علیہ وسلم

مصطفٰی خیرُالْوَرٰے ہو

یہ خوشبو مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہوتی ہے

اِرم کے در کی سجاوٹ ہوا ہے آپ کا نام

تاجدار انبیاء سے لو لگانا چاہئے

رب دے محبوب آ گئے ربّ دے دلدار آگئے

حضورؐ آپؐ نے ذروں کو ماہتاب کیا

روزِ ازل خالق نے جاری پہلا یہ فرمان کیا

مدینہ میں بلا اے رہنے والے سبز گنبد کے