ان کی یادوں کا دیا دل میں جلائے رکھنا

ان کی یادوں کا دیا دل میں جلائے رکھنا

ایک دن آئیں گے وہ آس لگائے رکھنا


تری قسمت کے ستارے بھی درخشاں ہوں گے

اپنے محبوب کی محفل کو سجائے رکھنا


تجھ کو دنیا کے شہنشاہ سلامی دیں گے

ان کی چوکھٹ پہ جبیں اپنی جھکائے رکھنا


ہم برے ہیں کہ بھلے جیسے بھی ہیں تیرے ہیں

ہم غلاموں سے بھی سرکار نبھائے رکھنا


ہوتا جاتا ہے عیاں درد محبت سب پر

اب مرے بس میں نہیں اس کو دبائے رکھنا


تم کو ہر نعمت عظمی سے نوازے گا خدا

اپنے محبوب کا میلاد منائے رکھنا


صدقہ حسنین کا زہرا کا علی کا آقا

اپنی رحمت کے مرے گھر پہ بھی سائے رکھنا


سر جھکانا نہ کسی غیر کے دروازے پر

عزت نفس بہر حال بچائے رکھنا


ہے نیازی کی تمنا یہ مدینے والے

دونوں عالم میں مری بات بنائے رکھنا

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

و ہ آگئے ہیں کریم بنکر نصیب سب کے سنورے گئے ہیں

ہر تڑپ دل کی وجہِ سکوں ہے

نبی علیہ السلام آئے

سورج چن ستارے امبر، دھرتی چار چوفیرا

کرم کی نظر تاجدارِ مدینہؐ

جامِ وحدت ساقیٔ کوثر کے پیمانے کا نام

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

جانے کب قریہ ملت پہ برسنے آئے

خدا کا وہ آخری پیمبر

یاد تیری نے کملیاں کیتا کملی والیا کرم کما