انؐ کی دہلیز سے یوں عشق کا بندہ پلٹے

انؐ کی دہلیز سے یوں عشق کا بندہ پلٹے

جسم سے روح کو جیسے کہ فرشتہ کھینچے


خلد و فردوس و ارم ، ماہ و نجوم و خورشید

ایک اک نے ہیں ترے حسن کے جلوے پہنے


نعتِ سرکارؐ ہے شاعر کا چمن زارِ سخن

اس عنایت پہ بھلا کیوں نہ وہ بلبل چہکے


کس میں ہمت ہے کہ دیکھے رخِ پر نور ترا

آنکھ ایسی ہے کہاں جس میں سمائیں جلوے


رحمتِ حق کا وسیلہ ہے تری ذات شہاؐ!

دونوں عالم میں نمایاں ہیں وسیلے تیرے


تیری معراج تعقّل کی ہے حد سے باہر

کتنے اونچے کیے اللہ نے تیرے رتبے


مجھ کو عصیاں زدہ شہرت سے بچا لیں آقاؐ

روز محشر یہ سبکسار نہ کر دیں قصے


انؐ کو شافع کہیں، ہادی کہ مبشِّر طاہرؔ

ہیں لقب سارے ہی کیا خوب شہِؐ بطحا کے

کتاب کا نام :- طرحِ نعت

دیگر کلام

جنابِ مصطفیٰ ہوں جس سے نا خوش

ہر گھڑی سیرتِ اطہر سے ضیا ڈھونڈیں گے

چاہے دیارِ ہند میں کچھ بھی نہیں رہے

حضورؐ پر ہوئیں اللہ کی رحمتیں صدقے

لطف غزل بھی اپنی جگہ خوب ہے مگر

میں کبھی نثر کبھی نظم کی صورت لکھوں

حسرت بھرے دلوں سے ہم آئے ہیں لوٹ کر

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

محمد سر اسرار الہی

اے کاش مہ گنبد خضری نظر آئے