اٹھا کر ہاتھ لوگوں میں دُعائیں بانٹ دیتا ہے

اٹھا کر ہاتھ لوگوں میں دُعائیں بانٹ دیتا ہے

وہ سُورج کی طرح اپنی شعاعیں بانٹ دیتا ہے


اتر جاتی ہے جب لفظوں کے سر سے نور کی چادر

وہ خوشبو سے دھلی ان میں ردائیں بانٹ دیتا ہے


کسی بستی کے اندر جب اندھیرے سر اٹھاتے ہیں

وہ اُس بستی میں کتنی ہی ضیائیں بانٹ دیتا ہے


بچا کر شام تک کچھ بھی نہیں رکھتا خزانوں میں

وہ دونوں ہاتھ سے اپنی عطائیں بانٹ دیتا ہے


زیادہ منتظر رکھتا نہیں صحرا نشینوں کو

وہ ٹھنڈی اور جاں پرور ہوائیں بانٹ دیتا ہے


زمیں کے باسیوں میں عرش سے اتری ہوئی انجم

کُھلے دل سے وہ جنت کی فضائیں بانٹ دیتا ہے

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

محمد مظہر اسرار حق ہے کوئی کیا جانے

جو غمگسارِ غریباں وہ چشمِ ناز نہ ہو

عشق کی آہ و زاریاں نہ گئیں

اک بار پھر مدینے عطارؔ جا رہے ہیں

مرے دل میں ہے آرزوئے مُحمَّدؐ

یہ دوری و مہجوری تا چند مدینے سے

صَلِّ عَلیٰ صَلِّ عَلیٰ

پہلی سی وہ فضا میں انگڑائیاں نہیں ہیں

ممدوح تُوؐ ہے تا ابد

اے کملی والیا محبوبا تیری شان دا سوہنیا ہور نہیں