وہ جو میثاق نبیوں سے باندھا گیا اس کا تھا مدعا خاتم الانبیاء

وہ جو میثاق نبیوں سے باندھا گیا اس کا تھا مدعا خاتم الانبیاء

بزمِ ہستی سجا کر دکھایا گیا معنی لولاک کا خاتم الانبیاء


تھا وہ قصرِ نبوت کا منظر حسیں جس میں کوئی کمی تھی کہیں نہ کہیں

وہ جو آئے عمارت مکمل ہوئی رنگ کُھل کر کِھلا خاتم الانبیاء


آپ سے پہلے تھے جو پیمبر سبھی اپنے اپنے زمانوں کے تھے سب نبی

آپ ہی کی نبوت ہوئی دائمی ابتدا، انتہا، خاتم الانبیاء


آگہی علم و حکمت تھے محوِ سفر جست بھرنے کو تھی جب کہ نوعِ بشر

ہر بلندی کی جانب ہوا راہبر آپ کا نقشِ پا خاتم الانبیاء


آپ کے بعد کوئی نبوت نئی اب ہو جاری یہ ہرگز بھی ممکن نہیں

ہے خدا کا یہ فرمان قرآن میں وہ ہے سچا خدا خاتم الانبیاء


آدم و ابنِ مریم ہو چاہے کوئی جن کی دنیا میں قائم امامت رہی

صحنِ اقصیٰ میں سب مقتدی بن گئے آپ تھے مقتدٰی، خاتم الانبیاء


آپ ہی سے ہوا روشنی کا سفر جگمگانے لگے سب زمانے ظفر

آپ شمس الضُّحٰی آپ نُورِ خدا آپ کا مرتبہ خاتم الانبیاء

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

گرچہ از روزِ ازل مشربِ رنداں دارم

مدینے پاک ول جاندے سفینے ویکھدا رہناں

مدینہ زندگی دی زندگی اے

تیری عظمت کا ہر اک دور میں چرچا دیکھا

ہر سوالی جہاں اپنی جھولی بھرے اس درِ مصطفیٰ کی سدا خیر ہو

سات افلاک ترےؐ پورب و پچھم تیراؐ

زہے عزتِ و افتخارِ مدینہ

سارے جہاناں نالوں سوہنے دی بستی چنگی

دنیا میں تیرے جیسا دوسرا کہیں نہیں

اپنی ڈیوڑھی کا بھکاری مجھے کردیں شاہا