وہ روحِ عالم براہِ سدرہ

(1)

وہ روحِ عالم براہِ سدرہ جو لامکاں کی طرف گئے تھے


براق و رفرف کو جس نے اعزاز بے نہایت عطا کئے تھے

وہ جس نے دیدارِ رب کے ساغر نگاہِ پرنور سے پیے تھے


وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے


(2)

گلوں کو بے باکیاں مبارک طیور کو شوخیاں مبارک


گلاب کو سرخیاں مبارک شجر ثمر پتیاں مبارک

صبا کو گلکاریاں مبارک سجی بنی وادیاں مبارک


بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک

ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنا دل کا بولتے تھے


(3)

جہانِ دنیا سے لا مکاں تک کمال حد تک سجی تھیں راہیں


فلک پہ بامِ عروج کھولے ہوئے تھا مدت سے اپنی بانہیں

وہ کہکشائیں بھی چاہتی تھیں کہ خاکِ نعلینِ شاہ چومیں


وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں

ادھر سے انوار ہنستے آتے ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے


(4)

رخِ منور سے بھیک لے کر حیات شمس و قمر کی چمکی


یہ نور دیکھا تو بامِ افلاک پر ستاروں نے آنکھ جھپکی

وہ روشنی کیسی دلربا تھی جو کون و امکاں کے رخ پہ جھلکی


یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی

وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے


(5)

حرم کے پر نور بام و در پر عجیب رنگوں کا کیف بکھرا


مطافِ کعبہ کی چار جانب عروج و رفعت سے نور اترا

زمینِ کعبہ کے ذرے ذرے نے نکہتوں کا سجایا سہرا


نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا

حجر کے صدقے کمر کے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے


(6)

ہر ایک منظر یہ چاہتا تھا کہ خاص مہماں کا دل لبھائے


ہر ایک منظر تھما ہوا تھا نظر میں رہنے کو رخ سجائے

سبھی کی خواہش کہ چشمِ رحمت میں آج اپنی جگہ بنائے


نظر میں دولہا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے

سیاہ پردے کے منہ پہ آنچل تجلیٔ ذاتِ بحت کے تھے


(7)

مسرتوں کی حسین رم جھم نے شاہِ والا کے گیت گائے


فضا میں قوسِ قزح کے سب رنگ سرنگوں ہو کے مسکرائے

مطیر موسم نے عطرِ راحت سے پھول کلیوں کے منہ دھلائے


خوشی کے بادل امڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے

وہ نغمہٴ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آگئے تھے


(8)

حرم کے مینار سے تقدس مچل کے نکلا چمک دمک کر


حرا کے معدن سے نورِ اقرا کے جام آئے چھلک چھلک کر

جبینِ اسود کو چومتے تھے خوشی سے قدسی لپک لپک کر


یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر

پھوہار برسی تو موتی جھڑ کے حطیم کی گود میں بھرے تھے


(9 )

ہوائیں خوشبو کا فیض لے کر چلی تھیں گل پوش وادیوں سے


غموں کے مارے ہوئے تھے واقف لطیف قسموں کی راحتوں سے

زمیں کے ذروں کی آشنائی ہوئی تھی پر کیف رفعتوں سے


دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے

غلاف مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے


(10)

صفا کی چوٹی کا بامِ عظمت پہ شادمانی سے ربطِ فرحین


وہ کوہِ مروہ کی رفعتوں کا خوشی سے سجنا برائے تسکین

صفا و مروہ کے بیچ رستے کے سنگریزے خوشی سے قالین


پہاڑیوں کا وہ حسن تزیین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین

صبا سے سبزہ میں لہریں آئیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے


(11)

کہیں تھا نوشابِ نور جاری پہن کے تقدیسِ ضو کا گہنا


کہیں پہ تھی سلسبیلِ رحمت کہیں پہ تسنیمِ زر کا بہنا

ہر ایک منظر نے سیکھ رکھا تھا منتہی بن سنور کے رہنا


نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آب رواں کا پہنا

کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حباب تاباں کے تھل ٹکے تھے


(12)

عظیم لمحہ تھا کائناتِ قدیم صنعت کی زندگی کا


نہیں تھا اس رات کام کوئی قمر کی بوسیدہ روشنی کا

نہیں تھا شایانِ شانِ مہماں محل تھا اک نورِ سرمدی کا


پرانا پر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا

ہجوم تار نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش باولے تھے


(13)

وہ صحنِ اقصیٰ سے قاب قوسین تک مہکتی ہوئی ہوائیں


تمام راہوں نے اوڑھ رکھی تھیں عز و تکریم کی قبائیں

وہ راہِ پر نور و پر تقدس ہم ایسے خاکی کہاں سے لائیں


غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اس رہ گزر کو پائیں

ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے


(14)

تمام عالم کا حسن دولہا پہ ہو رہا تھا نثار پیہم


فدا ہوا جا رہا تھا روئے حسیں پہ ابرِ مطیر چھم چھم

ہوئے تصدق رخِ منور پہ رنگ و نکہت کے سارے موسم


خدا ہی دے صبر جان پرغم دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم

جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے


(15)

درِ سخی پر ملائکہ نے عطاؤں کا جب وفور دیکھا


تو صف بہ صف ہو کے نور والے سے نور والوں نے نور مانگا

اٹھائے کشکول ہر ستارہ چمک دمک مانگنے لگا تھا


اتار کر ان کے رخ کا صدقہ وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا

کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے


(16)

یہ کہکشاں کا حسین چہرہ اسی سبب سے دمک رہا ہے


یہ لمسِ طلعت کا معجزہ ہے جو مہر و مہ سے جھلک رہا ہے

یہ ان کے دھوون کا فیض روئے فلک پہ کیسا چمک رہا ہے


وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے

نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے


(17)

ملا جو تلوؤں کا ان کے دھوون تو خوب مہکے گلاب و سوسن


ملا یہ تحفہ تو شعبِ خوشبو میں ڈھل گیا تھا جناں کا آنگن

اسی کے صدقے زمینِ جنت کا ذرہ ذرہ ہوا تھا روشن


بچا جو تلوؤں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ و روغن

جنہوں نے دولہا کی پائی اترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے


(18)

یہ طے شدہ تھا کہ نبضِ ہستی بغیر ان کے نہیں چلے گی


وہ جانتے تھے حیات ان کے بغیر اک سانس بھی نہ لے گی

وضو کے پانی کی ایک اک بوند آپ کی منتظر رہے گی


خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رت سہانی گھڑی پھرے گی

وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے


(19)

قطار اندر قطار قدسی تھے دست بستہ بچھائے شہ پر


تمنا پلکوں پہ دید کی تھی صدائے صلے علیٰ تھی لب پر

تمام سوچوں کا ایک مرکز تمام آنکھوں کا ایک محور


تجلیٔ حق کا سہرا سر پر، صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور

دو رویہ قدسی پَرے جماکر، کھڑے سلامی کے واسطے تھے


(20)

بچھاتے راہوں میں اپنی آنکھیں کریم تلووں کا لیتے درشن


بڑے قرینے بڑے ادب سے نثار کر دیتے اپنا تن من

ہم ان کے قدموں کا لمس پا کر بناتے آنکھوں کو نُور مسکن


جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن

مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے


(21)

خطا کے خاشاک موجِ غفران کے مقابل ٹھہرتے کب تک


ابھی نہ پہنچی تھی دھوپ سر پر کہ آن پہنچی کرم کی ٹھندک

گناہ گاروں کی بن پڑی ہے نہیں ہے اس بات میں ذرا شک


ابھی نہ آتے تھے پشت زیں تک کہ سر ہوئی مغفرت کی شلّک

صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے


(22)

خجل ہوئے مہر و ماہِ کامل نجوم بھولے پلک جھپکنا


لگا کے شوق و ادب کا کاجل جناں کی حوروں کا راہ تکنا

بدن کا تطہیر سے دمکنا وہ رخ پہ انوار کا جھلکنا


عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزال دم خوردہ سا بھڑکنا

شعاعیں بکے اڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے


(23)

یہاں سے خالی نہ جائے کوئی ملے گا سب کچھ انہیں بتاؤ


سبھی گداؤں کو دو بشارت عطا کی خوشخبریاں سناؤ

تمنا پوری کرو سبھی کی سبھی کی سب حسرتیں مٹاؤ


ہجومِ امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ

ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے


(24)

فضا میں رقصاں تھے رنگ و نکہت ہوا میں تھی بوئے مُشک و عنبر


نہ اب سے پہلے سنا نہ دیکھا فلک نے دیکھا وہ نُور منظر

وہ روشنی تھی کہ ماہ و خُورشید بھیک لیتے تھے آگے بڑھ کر


اٹھی جو گردِ رہِ مُنور وہ نُور برسا کہ راستے بھر

گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل اُمنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے


(25)

جو یاد آئی یہ بھول اپنی تکان بڑھتی گئی سفر کی


حسین موقع گنوایا اس نے حیات بدلی نہیں قمر کی

نہ عقل ماؤف ہوتی اس کی سیاہی مٹتی یہ عُمر بھر کی


سِتم کیا کیسی مت کٹی تھی قمر وہ خاک ان کی رہ گذر کی

اٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھنا مٹے تھے


(26)

صبا کے دستِ ہنر نے کیسی نفاستوں سے سنوارے رستے


حسین پھولوں کے رنگ و بو سے سجے ہوئے تھے وہ پیارے رستے

گزرنے والا ہے خاص مہماں یہ دے رہے تھے اشارے رستے


براق کے نقشِ سم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے

مہکتے گلبن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے


(27)

نمازِ اقصیٰ میں سب ہوں حاضر کیا یہ مالک نے حکم صادر


نبی سبھی ہوں گے اقتدا میں امام ہوں گے رسولِ آخر

دکھانی تھی ان کی شان و شوکت مقام کرنا تھا سب پہ ظاہر


نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِر عیاں ہوں معنیٔ اول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے


(28)

دھنک، ستارے ،گلاب ، لالہ سبھی کا چہرہ کھلا کھلا تھا


فلک پہ ہر سمت راحتیں تھیں عجب سا ماحول دلربا تھا

چہار جانب تھی خوب رونق ہر ایک منظر سجا ہوا تھا


یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا

نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے


(29)

جبین تھی رشکِ ماہِ کامل فزوں تھا نورِ حبیبِ داور


کمال پر حسنِ سرمدی تھا عروج پر تھا جمالِ سرور

نعالِ نوشہ کی طلعتوں پر نثار ہوتے تھے ماہ و اختر


نقاب الٹے وہ مہرِ انور جلالِ رخسار گرمیوں پر

فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے


(30)

جو شاہِ خوباں کا راستہ تھا عقیق و نیلم کا مستقر تھا


اڑا تھا ذرہ جو گردِ رہ میں وہ کہکشاؤں کا راہبر تھا

اسی کے صدقے میں سرخ یاقوت با مراد اور با ثمر تھا


یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا

صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے


(31)

بڑھی سواری بہ سوئے خلوت فزوں ہوئی شان اور شوکت


ملاحظہ کر کے ان کی رفعت تھی چشمِ افلاک محوِ حیرت

قدم قدم پر تھی موجِ راحت یوں جم کے برسا تھا ابرِ رحمت


بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت کہ دھل گیا نامِ ریگِ کثرت

فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے


(32)

ضیائیں خورشید لینے آتا سحاب جھکتے تھے آتے جاتے


وہ روئے پر نور ماہِ کامل وہ مشک گیسو دلوں کو بھاتے

وہ روز و شب کی حسین سنگت وہ دھوپ اور چاندنی کے ناتے


وہ ظلِ رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے

سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے


(33

یہیں پہ تھی ان کی آخری حد رکے تھے روح الامین ذی شاں


مقامِ سدرہ نہیں تھی منزل وہاں سے گزرے تھے شاہِ گیہاں

خرام دیکھا کئے دو عالم چلے جو کون و مکاں کے سلطاں


چلے وہ سرو چماں خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں

پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے


(34)

فضا میں طلعت کے رنگ بکھرے صبا قرینے سے مسکرائی


سواری آئی سواری آئی ملائکہ نے صدا لگائی

نہ آنکھ بھر دیکھ پایا کوئی سواری گزری سجی سجائی


جھلک سی اک قدسیوں پہ آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی

سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے


(35)

وہ خاصِ خاصان جا چکے تھے فضا میں لیکن بسی تھی خوشبو


عجیب سی بے بسی تھی طاری اداسیوں کا چلن تھا ہر سو

جلیں گے روح الامین کے پر جو اس سے آگے بڑھے سرِ مُو


تھکے تھے روح الامیں کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو

رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے


(36)

وہ کیا تھی رفتارِ شاہِ والا کبھی نہ عقل و خرد نے جانا


سمجھ نہ پائے گا کوئی اس کو یہ فہم و ادراک سے ہے بالا

بساطِ وہم و گماں میں کب تھا کہ راز کر پائے اس کے افشا


روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبو ا پھوٹا

خرد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے


(37)

نہ دم تھا اتنا نہ اتنی ہمت کہ دیر تک ہم رکاب رہتے


نحیف تھے عقل کے پرندے مجال تھی کب کہ ساتھ دیتے

وہ سارے عاجز تھے ناتواں تھے گرے تھے تھک کر وہ اڑتے اڑتے


جلو میں جو مرغِ عقل اُڑے تھے عجب برے حالوں گرتے پڑتے

وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے


(38)

اگرچہ مرغانِ عقل کے پر جہاں میں اڑتے تھے سب سے اوپر


مگر یہ دنیا نہیں وہ دنیا یہ بھید اس کا سمجھتے کیونکر

اڑے لگا کر تمام طاقت مگر گرے راستے میں تھک کر


قوی تھے مرغانِ وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر

اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خون اندیشہ تھوکتے تھے


(39)

فزوں تھی عرشِ علیٰ کی راحت کہ آئے روشن سراج والے


عروجِ عرشِ علیٰ پہ پہنچے خطا شعاروں کی لاج والے

صدا یہ گونجی کہ آ رہے ہیں وہ دو جہانوں کے راج والے


سنا یہ اتنے میں عرشِ حق نے کہا مبارک ہوں تاج والے

وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاجِ شرف ترے تھے


(40)

فلک پہ موجود چاند تاروں کی وجہِ تاب و تواں ہیں آقا


انہی کو بخشی گئی یہ عزت کہ سائرِ لامکاں ہیں آقا

کسی نے دیکھی نہیں وہ رفعت جہاں پہ جلوہ فشاں ہیں آقا


یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا

پھر ان کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے


(41)

قریب آیا جو نور والا فزوں ہوا عرش کا اجالا


وفور خوشبو کا تھا نرالا ہوا معنبر مقامِ بالا

عطا ہوئی دیدِ شاہِ والا تو ہجر و فرقت کی ٹوٹی مالا


جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا

یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے


(42)

گئے وہ عرشِ علیٰ پہ جس دم تو مشعلیں دید کی جلائیں


وہ منبعِ نور جلوہ گر تھے ضیائیں دیدار کرنے آئیں

تمام رنگوں کا نور چمکا دھنک نے یوں محفلیں سجائیں


ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں

حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے


(43)

ملائکہ تھے وہاں بہ کثرت سبھی کے دل میں تھا شوقِ خدمت


بجا تھا فخرِ عروجِ قسمت عطا ہوئی تھی عظیم نعمت

کسی نے دیکھا بہ صد عقیدت کسی نے لب پر سجائی مدحت


یہی سماں تھا کہ پیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلئے حضرت

تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے


(44)

جہاں ہوئی ہے تمہاری آمد یہاں رکاوٹ نہ کوئی سرحد


عظیم تر ہے سفر کا مقصد سجی ہوئی ہے تمہاری مسند

ہے منتظر وہ مقامِ سرمد تمہارا ہے انتظار بے حد


بڑھ اے محمد قریں ہو احمد‘ قریب آ سرورِ ممجد

نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے


(45)

تجھے کیا سرفراز رب نے تجھی پہ جچتی تھی سرفرازی


بنایا اپنا حبیب تجھ کو خدا نے تجھ کو یہ شان بخشی

بلایا عرشِ علیٰ پہ تجھ کو خدا نے کی تیری میزبانی


تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی

کہیں تو وہ جوشِ لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے


(46)

خجل تھے دانش کدوں کے پالے سمجھ نہ پائے سمجھنے والے


رہے تحیر میں عقل والے پڑے تھے فہم و ذکا پہ تالے

چراغِ عجز و ادب جلالے نصیب اپنا مزید اجالے


خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے

پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے


(47)

جہاں پہ سردارِ مہ رخاں تھا نہ کہکشاں تھی نہ آسماں تھا


عجیب عالم عجب سماں تھا نہ وہ زمیں تھی نہ وہ زماں تھا

وہ عقل و دانش کا امتحاں تھا ورائے عقل و خرد جہاں تھا


سراغِ این و متیٰ کہاں تھا، نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا

نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی، نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے


(48)

اُدھر تھا حکمِ خدائے دانا اِدھر تھا بندے کا سر جھکانا


اُدھر تھا اوجِ عطا دکھانا اِدھر تھا اعزازِ قرب پانا

اُدھر تھا معبود کا بلانا اِدھر تھا عجز و ادب دکھانا


اُدھر سے پیہم تقاضے آنا، اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا

جلال و ہیبت کا سامنا تھا، جمال و رحمت ابھارتے تھے


(49)

وہ شوقِ جلوہ میں آگے بڑھتے حیا کے غلبہ سے کچھ ٹھٹکتے


طلب سے بڑھتے ادب سے جھکتے کبھی وہ چلتے کبھی ٹھہرتے

بڑے قرینے سے پاؤں دھرتے وہ جانتے تھے ادب کے نکتے


بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے

جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے


(50)

عجیب لمحہ تھا زندگی کا سکوں دہندہ قرار افزا


چہار جانب سے نور چمکا مشامِ جاں میں ہوا اجالا

شبِ سفر کا ہوا سویرا شرف کی جانب قدم بڑھایا


پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتہً فعل تھا ادھر کا

تنزلوں میں ترقی افزا دنا تدلیٰ کے سلسلے تھے


(51)

سجا کے ماتھے پہ شکر سہرا لگا کے آنکھوں میں نور کجرا


رخِ منور گلاب نکھرا جبیں پہ چمکا نظر کا پہرا

وہ بحرِ طیب تھا خوب گہرا وہ آبِ طاہر تھا صاف ستھرا


ہوا نہ آخر کہ ایک بجرا ، تمّوجِ بحرِ ہُو میں ابھرا

دَنیٰ کی گودی میں اُن کو لیکر، فنا کے لنگر اٹھا دئے تھے


(52)

صدائے یزداں نے جب پکارا نہیں تھی تاخیر اب گوارا


مہانہ چپو نہ کوئی دھارا تحیر افزا سفر تھا سارا

کہاں تھا محبوب جلوہ آرا کہاں پہ روشن تھا وہ ستارا


کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا

بھرا جو مثلِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے


(53)

طیورِ فکر و نظر کو مالک اڑان بھرنے کو بال و پر دے


وصالِ معبود و عبد سمجھے وہ رفعتِ فکر اور نظر دے

جو راز کوئی سمجھ نہ پایا اسے سمجھنے کا کچھ ہنر دے


اٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پردے ، کوئی خبر دے تو کیا خبر دے

وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی ، نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے


(54)

چمن پہ روزِ بہار آیا تو روپ کلیوں کا مسکرایا


صبا نے خوشبو نگر بسایا گلوں نے بے حد نکھار پایا

وہ باغ تقدیس کا سجایا جو چشمِ فردوس میں سمایا


وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا، کہ غنچہ و گُل کا فرق اٹھایا

گرہ میں کلیوں کی باغ پھولے ، گُلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے


(55)

وہ کیا سفر تھا کہاں تھی منزل سمجھ نہ پائی یہ عقلِ عاقل


ہوئے وہ قصرِ دنیٰ میں داخل ہوئیں مرادیں شرف کی حاصل

وہ قاب قوسین قربِ کامل رہا نہ کچھ درمیان حائل


محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل

کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے


(56)

یہ کی تھیں لہروں نے التجائیں کہ ہم بھی تشنہ لبی دکھائیں


قبول ہونے لگیں دعائیں ہوئیں عطاؤں پہ پھر عطائیں

تو بڑھ کے موجوں نے دی صدائیں ہمیں بھی جامِ کرم پلائیں


زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں

بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے


(57)

وہی ہے ناہی وہی ہے آمر وہی ہے واسع وہی ہے ناصر


وہی ہے غائب وہی ہے حاضر وہی ہے منظر وہی ہے ناظر

وہی ہے باسط وہی ہے قاہر وہی ہے خالق وہی ہے قادر


وہی ہے اوّل وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر

اُسی کے جلوے، اُسی سے مِلنے، اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے


(58)

یہ قربِ قوسین کیا ہے سمجھو یہ کیا شرف ہے ذرا تو سوچو


تم اپنا طرزِ عمل تو دیکھو نہ جانے تم کس گمان میں ہو

ذرا تو علم و شعور سیکھو حساب اپنا درست کرلو


کمان امکاں کے جھوٹے نقطو ، تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو

محیط کی چال سے تو پوچھو، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے


(59)

اِدھر اطاعت، خمیدہ پلکیں اُدھر محبت کناں نگاہیں


اِدھر لبوں پر تھیں التجائیں اُدھر تھیں جود و عطا کی باتیں

اِدھر تھی امت کی فکر دل میں اُدھر تمنا کہ اور مانگیں


اُدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں اِدھر سے انعام خسروی میں

سلام ورحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پر نور میں پڑے تھے


(60)

جمیل صورت حسین و احسن نظر کا قبلہ وہ روئے روشن


لطیف لطف و عطا کا معدن فدا ہیں جس پر گلاب و سوسن

وفورِ رحمت سے پر تھا دامن نہ بے قراری نہ کوئی الجھن


زبان کو انتظارِ گفتن تو گوش کو حسرتِ شنیدن

یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے


(61)

وہ حسن و خوبی کا استعارہ وہ دونوں عالم میں سب سے پیارا


جو بے سہاروں کا ہے سہارا فدا ہے جس پر جہان سارا

وہ دستِ قدرت کا شاہ پارہ حبیبِ داور نبی ہمارا


وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ، بہشت کی سیر کو سدھارا

چمک پہ تھا خلد کا ستارہ ، کہ اس قمر کے قدم گئے تھے


(62)

خوشی جناں میں عروج پر تھی سجی تھی محفل مسرتوں کی


کلی جناں کی مچل کے چٹکی لدی تھی پھولوں سے ہر کیاری

ہوا میں خوشبو کا رقص جاری فضا سے نکہت گلوں پہ برسی


سُرورِ مقدم کی روشنی تھی، کہ تابشوں سے مہِ عرب کی

جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی ، جو پھول تھے سب کنول بنے تھے


(63)

سبھی کی خواہش لہکتے رہیے قدوم چھو کر سدا مہکیے


جلو میں شبنم کی شال رکھیے لباسِ اخضر پہن کے ہنسیے

صبا سے نکہت کے گیت سنیے ہوا سے خوشبو کی بات کہیے


طرب کی نازش کہ ہاں لچکیے ، ادب وہ بندش کہ ہِل نہ سکیے

یہ جوش ضدّین تھا کہ پودے ، کشا کشِ ارّہ کے تلے تھے


(64)

وہ مظہرِ حق حبیب رب کے وہ سب کے آقا وہ سب کے پیارے


نہ جانے کتنے جہان گھومے نہ جانے کتنے کئے نظارے

وہ لا مکانوں کی سیر کر کے پلک جھپکنے سے پہلے پلٹے


خدا کی قدرت کہ چاند حق کے ، کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے

ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی، کہ نور کے تڑکے آلیے تھے


(65)

اے صاحبِ شان و عز و عظمت اے منبعِ جود و لطف و شفقت


اے دو جہانوں کی زیب و زینت اے ماحیٔ رنج، وجہِ راحت

کرم ہو اشفاق پر بھی حضرت کریم و اکرم قسیمِ نعمت


نبیِ رحمت شفیعِ امّت ، رضا پہ للہ ہو عنایت

اِسے بھی اُن خلعتوں سے حصہ، جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے


(66)

بساط اتنی نہیں ہے آقا کہ نعت شایانِ شان لکھتا


حضور! لکھتے ہوئے یہ خمسہ یہ دل بھی کانپا قلم بھی لرزا

قبول کر کے جنابِ والا عطا ہو بخشش کا اک اشارہ


ثنائے سرکار ہے وظیفہ، قبولِ سرکار ہے تمنّا

نہ شاعری کی ہوس نہ پرواہ ، روی تھی کیا کیسے قافیے تھے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

پلانے کی تمنا ہے نہ پینے کی تمنا ہے

کس کی آنکھیں کس کی ہے ایسی جبیں یا رحمت اللعالمیں

آپؐ کے دامن سے جا لپٹوں کسی دن خواب میں

میرا محبوب دو جگ توں نرالا

راتوں کی خلوتوں کا سکوں لاجواب ہے

ایسی روشنی دیکھی، ایسا راستہ پایا

کیوں عمر شرح زلفِ بُتاں میں گنوائی جائے

ہے رب دے نال تیری آشنائی یارسول اللہ

قلم کو ذوقِ نعت بھی ہے شوقِ احتیاط بھی

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا