وہ اُجالے جو نورِ نبی سے ہوئے

وہ اُجالے جو نورِ نبی سے ہوئے

کتنے روشن دیے ،روشنی سے ہوئے


جب سے دیکھی ہے حسنِ محمد کی ضو

پھر نہ مرعوب ہم ہر کسی سے ہوئے


سر جھکایا درِ شاہِ ابرار پر

لُطف اندوز ہم بندگی سے ہوئے


گو تصور ہے لیکن یہ پُر لطف ہے

رابطے اُن کی مہکی گلی سے ہوئے


ذلتیں ساری وجہِ تکبّر سے ہیں

جتنے اُونچے ہوئے عاجزی سے ہوئے


سُن کے حسانؓ و جامیؒ و بُوصیریؒ کو

کتنے محظوظ ہم شاعری سے ہوئے


آپ کا نامِ نامی جلیل ایسا ہے

جس پہ قُربان ہم سب خوشی سے ہوئے

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

سارے غلام سرخرو سارے غلام سرفراز

کام بگڑے بنا نہیں کرتے

جو سینے کو مدینہ اُن کی یادوں سے بناتے ہیں

بے اجازت اُس طرف نظریں اُٹھا سکتا ہے کون

ساقی کوثر ترا ہے جام و مینا نور کا

مِری آنکھوں کی ضد ہے یا مکینِ گنبدِِ خضرا

کُجھ نئیں درکار سانوں سامنے یار ہووے

ہے زیست کی بہار دیارِ رسولؐ میں

آگیا مرکز میرے ایمان دا

بارِ عصیاں سر پہ ہے بیچارگی سے آئے ہیں