وہ زُلف عنبریں وہ سراپا خیال میں

وہ زُلف عنبریں وہ سراپا خیال میں

رہتا ہے شاہِ دین کا چہرہ خیال میں


ترقیمِ نعتِ شاہِ دو عالم کے واسطے

لازم رہے حضور کا اسوہ خیال میں


دل میں سما گئیں ہیں مدینے کی رونقیں

رہتا ہے ہر گھڑی مرے روضہ خیال میں


آنکھوں میں بس گئی ہے جو صورت حضور کی

دِکھتا ہے چار سُو مجھے جلوہ خیال میں


خوشبو نے رگِ جان میں خیمے لگا لیے

جب آگیا ہے ان کا پسینہ خیال میں


محبوبِِ دو جہاں تھے مدینے میں جلوہ گر

وہ آ گیا ہے میرے زمانہ خیال میں


جس خوش نصیب راہ سے گزرے تھے شاہِ دیں

چوما ہے ناز نے بھی وہ رستہ خیال میں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

اعجاز مصطفٰی نے کیا کیا دکھادیے ہیں

کملی والے دا دیدار ہووئے عطا کردا ہر ویلے میں التجاواں رہیا

آئیں چلتے ہیں مدینے کی طرف

ملا جس کو شرف معراج کی شب حق کی دعوت کا

جس نے سمجھا عشقِ محبوبِؐ خدا کیا چیز ہے

اگر ایمان کی آنکھوں سے دیکھو تو حقیقت میں

خیرِ کثیر خیر الامم والیِ حرم

اتنی کشش کہاں بھلا باغِ ارم میں ہے

ترے در پر جو کیف آیا کہیں جا کر نہیں آیا

رنج و الم کا ہر گھڑی گرچہ وفور ہے