یا نبیؐ صلِ علیٰ وردِ زباں ہو جائے

یا نبیؐ صلِ علیٰ وردِ زباں ہو جائے

وقفِ مدحت مرا اندازِ بیاں ہو جائے


حشر کے روز کڑی دھوپ میں میرے آقاؐ

آپؐ کا قرب مری جائے اماں ہو جائے


تھام لوں آپؐ کی چوکھٹ کو بصد عجز و نیاز

آنکھ میں اشک ہوں دل گریہ کناں ہو جائے


جسم و جاں ایسے فدا ہوں ترےؐ سنگِ در پر

جسم ہو خاک مری روح دُھواں ہو جائے


آپؐ سے بڑھ کے حسیں کوئی نہیں عالم میں

کیوں نہ شیدا و فدا سارا جہاں ہو جائے


روز افزوں ہو میری آنکھ سے بہتا پانی

دل سے ُاٹھتا ہوا غم کوہِ گراں ہو جائے


منتظر دید کا مدت سے ہے اشفاقؔ احمد

اِک جھلک آج تو اے جانِ جہاں ہو جائے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراط ِ نُور

دیگر کلام

ترِے شہرِ مقدّس پر تری رحمت کے

کیہہ اس توں ہور وڈی نیک نامی

محمدؐ کی نعتیں سناتے گزاری

آہ پورا مرے دِل کا کبھی اَرماں ہوگا

میرے لوں لوں دے وچہ رچیا ناں اے ترا ذکر تیرا میری زندگی سوہنیا

اللہ غنی کیسی وہ پر کیف گھڑی تھی

دل ونگاہ کی دُنیا نئی نئی ہوئی ہے

ایسے بن کر وہ خوبرو آئے

سرکارِ مدینہ کی عظمت کو کیا سمجھے کوئی کیا جانے

هفضلِ رب سے طیبہ آیا، میں کہاں طیبہ کہاں