یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

یہ کرم ہے ربِ کریم کا مرے لب پہ ذکرِ رسول ہے

کہیں میٹھا میٹھا سُرور ہے کہیں رحمتوں کا نزول ہے


میں گدائے آلِ رسول ہوں مرے پاس کوئی کمی نہیں

جو ہوئی ہیں اتنی نوازشیں تو یہ فیضِ زہرا بتول ہے


ہوں میں گم جو آقا کی یاد میں ہیں انہی کے نام کی برکتیں

مری دھڑکنوں میں وہی رہیں یہی چاہتوں کا اصول ہے


یہ جو کشتِ دل میں قرار ہے یہ حسین رنگِ بہار ہے

مرے مصطفیٰ کے سبب سے ہے یہ جو باغ ہے یہ جو پھول ہے


ملیں جلوے کوچۂ نور کے یہ دعا ہے نازغریب کی

نہ ہو دید مجھ کو حضور کی تو یہ زندگی بھی فضول ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

نہیں ہے لا اِلٰہ کوئی مگر اللہ ، اِلا اللہ

برس چالیس گذرے نعت کی محفل سجانے میں

خالقِ ُکل اے ربِ ُعلیٰ

ترے آتے ہی کنگورے گرے ایوان کسری کے

مدینہ درد منداں دا خزانہ

وہ مہرِ مُبیں جب سے ہے جلوہ گر

مصطفے کی محبت بڑی چیز ہے

دل ڈوبتا ہے ہجر کے نا دیدہ آب سے

اَحمد کی رضا خالق عالم کی رضا ہے

محمد عرش ول چلے ستارے مُسکرا اُٹھے